محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
عقد مزارعت میں پیداوار سے ایک تہائی یا چوتھائی وصول کرنا مسئلہ(۵۰۰): اگر کوئی شخص اپنی زمین مزارعت کے طور پر دے، اس شرط پر کہ کل پیداوار سے ایک تہائی یا چوتھائی حصہ میں لے لوں گا، یہ عقد شرعاً درست ہے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : وقال صاحبا أبي حنیفۃ (أبو یوسف ومحمد) ، ومالک وأحمد وداود الظاہري ، وہو رأي جمہور الفقہاء : المزارعۃ جائزۃ ، بدلیل أن النبي ﷺ عامل أہل خیبر بشطر ما یخرج من ثمر أو زرع ۔۔۔۔۔ والعمل والفتوی عند الحنفیۃ علی قول الصاحبین ، لحاجۃ الناس إلیہم ولتعاملہم ، وہذا ہو الراجح ۔ وہي تشبہ الشرکۃ والإجارۃ ، فہي مشارکۃ في الناتج بین صاحب الأرض والمزارع بنسبۃ متفق علیہا کالنصف أو الثلث للمزارع ۔ (۶/۴۶۸۵ ، الفصل الخامس ، المزارعۃ والمساقاۃ ، المبحث الأول) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ومنہا أن یکون ذلک البعض من الخارج معلوم القدر من النصف أو الثلث أو الربح أو نحوہ ۔ (۵/۲۳۵ ، کتاب المزارعۃ ، الباب الأول) ما في ’’ کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ ‘‘ : حکم المزارعۃ ورکنہا وشروطہا : الحنفیۃ قالوا : رکن المزارعۃ الذي یتم العقد بہ ہو الإیجاب والقبول بین المالک والعامل ، فإذا قال صاحب الأرض للعامل دفعت إلیک ہذہ الأرض لتعمل فیہا مزارعۃ بالنصف أو الثلث وقال العامل قبلت فقد تم التعاقد بینہما ۔ (۳/۸ ، حکم المزارعۃ ورکنہا وشروطہا وما یتعلق بہا)