محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
غیر حاضری کے باوجود مدرسین کا تنخواہ لینا مسئلہ(۴۷۵): اگر کسی شہر میں کوئی نیا مدرسہ یا اسکول کا افتتاح عمل میں آیا ہو، اور افتتاح کے ساتھ ہی اساتذہ کا تقرر بھی عمل میں آچکا ہو، جب کہ طلبہ ابھی مدرسہ میں حاضر نہیںہیں، اور طلبہ کے نہ ہونے کی وجہ سے اساتذہ بھی اسکول یا مدرسہ میں حاضر نہیں ہوتے ہیں، تو ان حالات میں اساتذۂ کرام کا تنخواہ لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ مدرس کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہے، اور اجیرِ خاص اجرت کا مستحق اس وقت ہوتا ہے، جب کہ وہ مدتِ اجارہ میں عمل کے لیے حاضر ہو۔(۱) ------------------------------ =(۹/۸۲ ، کتاب الإجارۃ ، البحر الرائق : ۸/۵۲ ، کتاب الإجارۃ) ما في ’’ المبسوط للسرخسي ‘‘ : ان أجیر الواحد لا یکون ضامناً لما تلف في یدہ من غیر صنعہ وہو الذي یستوجب البدل بمقابلۃ منافعہ حتی إذا سلم النفس استوجب الأجر وإن لم یستعملہ صاحبہ ، ولا یملک أن یؤجر نفسہ من آخر في تلک المدۃ ۔ (۱۵/۱۱۵، کتاب الإجارۃ) (فتاوی محمودیہ : ۱۶/۵۷۲،کراچی، فتاوی حقانیہ : ۶/۲۵۰) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وفي الحموي : سئل المصنف لعدم وجود الطلبۃ ، فہل یستحق المعلوم ؟ أجاب : إن فرغ نفسہ للتدریس بأن حضر المدرسۃ المعیّنۃ لتدریسہ استحق المعلوم ، لا مکان التدریس لغیر الطلبۃ المشروطین ۔ (۶/۴۴۴) ما في ’’ شرح المجلۃ لسلیم رستم باز ‘‘ : الأجیر الخاص یستحق الأجرۃ إذا کان فی مدۃ الإجارۃ حاضراً للعمل ۔۔۔۔ غیر أنہ یشترط أن یتمکن من العمل ، فلو سلم نفسہ ولم یتمکن فیہ لعذر کالمطر والمرض ، فلا أجر لہ ، ولکن لیس لہ أن یمتنع عن العمل وإذا امتنع لا یستحق الأجرۃ ۔ (۱/۲۳۹)