محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
کتاب الضمان ٭…ضمان کے مسائل…٭ قاتل شخص کی ضمانت مسئلہ(۶۴۶): کوئی شخص قتل (Murder)کے جرم میں گرفتار ہوا ہو، اور حقیقتاً اسی نے قتل بھی کیا ہو، اور بعض حضرات اس کی ضمانت کروارہے ہیں، تو اُن کا یہ عمل جائز ہے، کیوں کہ حدیث شریف میں قاتل (ظالم) اور مقتول (مظلوم) دونوں کے ساتھ ہمدردی کا حکم ہے، قاتل کی ہمدردی یہ ہے کہ اس کو ظلم سے روکا جائے(۱)، اگر اس کے رہائی کی توقع ہو، تو اس کی ضمانت لے لیں، یہ بھی اس کی ہمدردی میں داخل ہے، لیکن اس کو بے قصور قرار دینے کی کوشش کرنا یہ جائز نہیں ہے، یہ ظلم کی اعانت ومدد ہے جو حرام ہے ۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن أنس قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ انصر أخاک ظالماً أو مظلوماً ‘‘ ۔ قال : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہذا ننصرہ مظلوماً ، فکیف ننصرہ ظالماً ؟ قال : ’’تأخذ فوق یدیہ ‘‘ ۔ (۱/۳۳۱ ، باب أعن أخاک ظالماً أو مظلوماً ، رقم : ۲۴۴۴) ما في ’’ فتح الباري ‘‘ : قولہ : (فقال : تأخذہ فوق یدیہ) کفی بہ عن کفہ عن الظلم بالفعل إن لم یکف بالقول ، وعبر بالفوقیۃ إشارۃ إلی الأخذ بالاستعلاء والقوۃ ۔ (۵/۱۱۷) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : یجب إعانۃ المسلمین بدفع الضرر العام أو الخاص عنہم ، لقول اللّٰہ تعالی : {وتعاونوا علی البرّ والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان} ۔ ولقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ المسلم أخو المسلم ؛ لا یظلمہ ولا یُسلِمہ ، ومن کان في حاجۃ=