محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ساس کی خدمت مسئلہ(۱۷۴): آج کے عرف ورَواج میں ساس کی خدمت کرنا بہو کے لیے لازم سمجھا جاتا ہے، اگر بہو ساس کی خدمت نہیں کرتی ہے، تو اسے لعن طعن بھی کیا جاتا ہے، جب کہ بہو پر ساس کی خدمت کرنا لازم نہیں ہے، ہاں! اگر بہو اپنی خوشی سے شوہر کے والدین کی خدمت کرتی ہے، تو یہ بہت اچھی بات ہے، بہو کے لیے موجبِ سعادت ہے، اور یہ حسنِ اخلاق بھی ہے (۱)، لیکن خدمت نہ کرنے پر لعن طعن کرنا درست نہیں ہے۔ (۲) ------------------------------ = فاثم ذلک علیہ ‘‘ ۔ رواہما البیہقي في شعب الإیمان ۔ (ص/۲۷۱) ما في ’’ شرح الطیبي ‘‘ : قولہ : ’’ فأصاب إثمًا ‘‘ أي ما اثم بہ من الفواحش ، وقولہ : ’’ فإنما إثمہ علی أبیہ ‘‘ ۔ أی جزاء الإثم علیہ حقیقۃ ، ودل ہذا الحصر علی أن لا إثم علی الولد مبالغۃ ، لأنہ لم یتسبب لما یتفادی ولدہ من إصابۃ الإثم ۔ (۶/۲۷۶، کتاب النکاح) (۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {لا یکلّف اللّٰہ نفسًا إلا وُسعہا} ۔ (سورۃ البقرۃ :۲۸۶) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : العاجز عن الفعل لا یکلّف بہ ۔ (۱/۲۸۴، فصل في أرکان الصلاۃ) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ سنن أبي داود ‘‘ : عن عائشۃ رضي اللہ تعالی عنہا قالت : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ’’ إن المؤمن لیدرک بحسن خلقہ درجۃ الصائم القائم ‘‘ ۔ (ص/۶۶۱، باب في حسن الخلق) وفیہ أیضًا : عن أبی الدرداء رضي اللہ تعالی عنہ ، عن النبي ﷺ قال : ’’ ما من شيء أثقل في المیزان من حسن الخلق ‘‘ ۔ (ص/۶۶۱، باب في حسن الخلق) (۲) ما في ’’ الأصول والقواعد للفقہ الإسلامي ‘‘ : ترک الإحسان لا یکون إساء ۃ ۔ (ص/۱۴۴، القاعدۃ :۸۷)=