محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بواسیری مسّوں کو کاٹنا مسئلہ(۶۲۲): اگر بواسیری مسّوں کو کاٹنے کی صورت میں ، مریض کے ہلاک ہونے کا خوف ہو، تو بواسیری مسّوں کو کاٹنا حرام ہے، اور اگر نہ کاٹنے کی صورت میں ہلاکت کا خوف ہو، تو ان مسّوں کا کاٹنا مباح ہے، اور اعتدال کی حالت میں مکروہِ تحریمی ہے۔(۱)پیر یا بدن کی پھٹن کو جوڑنا مسئلہ(۶۲۳): انسان کے پیروں یا بدن میں پھٹن اس قدر ہو کہ مزید بڑھنے کا اندیشہ ہو، اور ترکِ علاج پر ضرر کا خوف ہو، تو اس پھٹن کو جوڑنا درست ہے۔(۲) ------------------------------ =السکر التداوي بہ للضرورۃ وبضوابطہا الشرعیۃ ، في حین یری البعض ان ہذہ المادۃ لا تبقی علی حالتہا بعد استخراجہا من الخنزیر ، بل تتم فیہا عملیۃ الاستحالۃ من خلال اجراء تفعلات کیمیائیۃ معقدۃ ومتعددۃ علی تلک الغدۃ تجعلہا شیئاً آخر، حیث انقلبت حقیقتہا وتغیرت صفاتہا الأساسیۃ، لذلک إن الانسولین یعتبر طاہراً شرعاً وحلالاً یجوز استعمالہ مطلقاً ۔ (ص/۲۵۰) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {ولا تلقوا بأیدیکم إلی التہلکۃ} ۔ (سورۃ البقرۃ :۱۹۰) ما في ’’ أحکام الجراحۃ الطبیۃ ‘‘ : الحالۃ الأولیٰ : یحرم فیہا فعلہ ، وذلک عند خوف الہلاک بسبب قطعہ ۔ الحالۃ الثانیۃ : یباح فیہا فعلہ ، وذلک عند خوف الہلاک بسبب ترکہ ۔ الحالۃ الثالثۃ : الکراہۃ فیما عدا ذلک ۔ (ص/۳۰۲ ، ۳۰۳ ، المسألۃ الأولی : ہل یکرہ قطع البواسیر؟ ، فقہ النوازل :۴/۲۱۴ ، قضایا الطبیۃ المعاصرۃ :ص/۵۳۳) ما في ’’ قواعد الفقہ ‘‘ : أکثر ما یخاف لا یکون ۔ (ص/۶۲، القاعدۃ : ۴۷) (۲) ما في ’’ أحکام الجراحۃ الطبیۃ ‘‘ : وہذہ الفتوق وجدت الحاجۃ الموجبۃ لعلاجہا بالرتق فہي تشتمل في کثیر من الأحیان علی آلام ، وقد یترتب علی ترکہا ضرر في موضع الفتق=