محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
انعام کی تعیین کے ساتھ دن کی تعیین مسئلہ(۴۵۸): اگر کسی شخص کی کوئی چیز گم ہوگئی ہو، اور وہ یہ اعلان کرے کہ جو میری فلاں گم شدہ چیز اتنے اتنے دنوں میں لاکر دے گا، اسے اتنا اتنا انعام دوں گا، تو مالکیہ کے نزدیک جعالہ کی صحت کے لیے شرط یہ ہے کہ مدت متعین نہ کرے، اور دیگر ائمہ فرماتے ہیں کہ مدت وعمل کا متعین کرنا صحیح ہے، لہٰذا عامل اگر مقررہ مدت میں گمشدہ چیز لے آتا ہے، تو انعام کا مستحق ہوگا، اور اگر مقررہ میں نہ لائے، تو انعام کا مستحق نہ ہو گا۔(۱) ------------------------------ =جہالۃ العمل والمدۃ قیاساً علی سائر الإجارات التي یشترط لہا معلومیۃ العمل والمأجور والأجرۃ والمدۃ ، وإنما أجازوا فقط استحساناً دفع الجعل لمن یرد العبد الآبق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وتجوز الجعالۃ شرعًا عند المالکیۃ والشافعیۃ والحنابلۃ ۔ (۵/۳۸۶۵ ،۳۸۶۶ ، مشروعیۃ الجعالۃ) (جدید معاشی نظام میں اسلامی قانونِ اجارہ:ص/۹۴) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : رابعاً : اشترط المالکیۃ ألا یحدد للجعالۃ أجل ، وقال غیرہم : یصح الجمع بین تقدیر المدۃ والعمل ، مثل من خاط لي ہذا الثوب في یوم فلہ کذا ، فإن أتی بہ في المدۃ استحق الجعل ، ولم یلزمہ شيء آخر ، وإن لم یف بہ فیہا فلا یلزمہ شيء لہ ، وذلک بخلاف الإجارۃ ۔ (۵/۳۸۷۰ ، شروط الجعالۃ) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : تأقیت العمل : قال المالکیۃ والشافعیۃ یشترط لصحۃ عقد الجعالۃ عدم تأقیت العمل بوقت محدد ، فلہ دینار ولم یصح العقد ، ۔۔۔۔۔۔۔۔ إلا أن المالکیۃ قالوا : إن تأقیت العمل یفسد العقد فی حالۃ ما إذا لم یشترط العامل أن لہ أن یترک العمل متی شاء ، ویکون لہ من العوض بحساب ما عمل ، لأن العامل دخل في العقد علی أن یتم العقد ۔ (۱۵/۲۱۵)