محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ظلم پرست عناصر کو سودی رقم رشوت میں دینا مسئلہ(۳۳۵): ظلم پرست عناصر، غنڈہ گردی کرنے والے افراد کو سود کی رقم سے رشوت دینا جائز نہیں ہے، دینے کی صورت میں سود کی رقم سے خود کا منتفع ہونا لازم آتا ہے، جو ناجائز اور حرام ہے، کیوں کہ سود کی رقم میں اصل حکم یہ ہے کہ وہ اصل مالک کو پہنچائی جائے، اور اگر مالک معلوم نہ ہو تو غرباء ومساکین پر بلا نیتِ ثواب صدقہ کردیا جائے(۱)، کسی کو بطورِ رشوت دینا ہرگز جائز نہیں ہے۔(۲) ------------------------------ ={یا أیہا الذین اٰمنوا اتقوا اللّٰہ وذروا ما بقي من الربوا إن کنتم مؤمنین} ۔ [البقرۃ : ۲۸۷] ۔ {یآیہا الذین اٰمنوا لا تأکلوا الربوآ أضعافاً مضاعفۃ} ۔ (سورۃ آل عمران : ۱۳۰) ما في ’’ روح المعاني ‘‘ : والمراد من الأکل الأخذ ، وعبّر بہ عنہ لما أنہ معظم ما یقصد بہ ولشیوعہ في المأکولات ما فیہ من زیادۃ التشنیع ۔ (۴/۸۷) ما في ’’ سنن أبي داود ‘‘ : عبد الرحمن بن عبد اللّٰہ بن مسعود ، عن أبیہ قال : ’’ لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربوا وموکلہ ، وشاہدہ ، وکاتبہ ‘‘ ۔ (ص/۴۷۳ ، في آکل الربوا وموکلہ) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ :إن علم أرباب الأموال وجب ردّہ علیہم ، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہ ، ویتصدّق بہ بنیۃ صاحبہ ۔ (۷/۲۲۳ ، کتاب البیوع ، مطلب فیمن ورث مالاً حراماً) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : والواجب في الکسب الخبیث تفریغ الذمۃ والتخلص منہ بردّہ إلی أربابہ إن علموا، وإلا إلی الفقراء ۔ (۳۴/۲۴۵ ، الکسب) ما في ’’ سنن أبي داود ‘‘ : عن عبد اللّٰہ بن عمرو قال :’’ لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الراشي والمرتشي ‘‘ ۔ (ص/۵۰۴ ، کتاب القضاء ، باب في کراہیۃ الرشوۃ) ما في ’’ عون المعبود ‘‘ : قال القاري : أي معطي الرشوۃ وأخذہا ، وہي الوصلۃ إلی الحاجۃ بالمصانعۃ ، قیل : الرشوۃ ما یعطی لإبطال حق ، أولإحقاق باطل ۔ (ص/۱۵۲۷ ، رقم :۳۵۸۰) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردّہ علیہم وإلا=