محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
نکاح میں لڑکی کے نام میں غلطی مسئلہ(۱۲۶): ایک شخص کی دو کنواری لڑکیا ں تھیں؛ مثلاًزاہدہ اور خالدہ، اس نے زاہدہ کے نکاح میں بھول کر خالدہ کا نام لے لیا ،اور شوہر نے اسے قبول بھی کرلیا، تو یہ نکاح خالدہ کے ساتھ ہی صحیح ہوگا، زاہدہ کے ساتھ نہیں، البتہ اگر زاہدہ مجلسِ نکاح میں موجود ہو، اور باپ اُس کی طرف اشارہ کرکے کہے: میں نے اپنی اِس بیٹی خالدہ کا نکاح تجھ سے کردیا (حالانکہ وہ زاہدہ ہے)، تو اس صورت میں زاہدہ کے ساتھ نکاح صحیح ہوگا، خالدہ کے ساتھ نہیں،کیوں کہ حِسّی اشارہ کے ساتھ تعریف، نام لے کر تعریف سے زیادہ قوی ہے۔(۱) ------------------------------ =باللہ فأعطوہ، ومن استعاذکم باللہ فأعیذوہ ، ومن دعاکم فأجیبوہ ، ومن أہدی إلیکم کراعاً فاقبلوہ ‘‘ ۔ (۴/۱۸۴، کتاب البیوع ، باب الہدیۃ) ما في ’’ عقود رسم المفتي ‘‘ : الثابت بالعرف کالثابت بالنص ۔۔۔۔۔ (وفي) تصحیح العلامۃ قاسم : فإن قلت : قد یحکمون أقوالاً من غیر ترجیح ، وقد یختلفون في التصحیح ، قلت : یعمل بمثل ما عملوا من اعتبار تغیرات ’’العرف ‘‘ وأحوال الناس وما ہو الأرفق بالناس ، وما ظہر علیہ التعامل ۔ (ص/۱۸۱، الفتوی في الوقائع لا بد لہ من ضرب اجتہاد ومعرفۃ أحوال الخ) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ التنویر مع الدر والرد ‘‘ : النکاح (ینعقد) ملتسباً (بإیجاب) من أحدہما (وقبول من الآخر) ۔ (۴/۵۹ ،۶۰، کتاب النکاح) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وکذا لو غلط في اسم ابنتہ إلا إذا کانت حاضرۃ وأشار إلیہا فیصح ؛ ولو لہ بنتان أراد تزویج الکبری فغلط فسماہا باسم الصغری صح للصغری ۔ خانیۃ ۔ در مختار ۔ وفي الشامیۃ : قولہ : (إلا إذا کانت حاضرۃ الخ) راجع إلی المسألتین : أي فإنہا لو کانت مشارًا إلیہا وغلط في اسم أبیہا أو اسمہا لا یضرّ ، لأن تعریف الإشارۃ=