محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
خواتین کی ملازمت مسئلہ(۵۶۳): یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام خاندانی نظام کے استحکام کو بڑی اہمیت دیتا ہے، چنانچہ اس مقصد کے پیش نظر اس نے مردوں وعورتوں کی ذمہ داریوں میں تقسیم کار سے کام لیا ہے کہ گھر سے باہر کی ذمہ داریاں- جن میں کسبِ معاش کی تگ و دو بھی داخل ہے- مردوں سے متعلق ہوں گی، اور گھر کے اندر اُمور عورتوں سے متعلق ہوں گے، یہ وہ بہترین تقسیم کار ہے، جو مسلم معاشرہ میں آج بھی بڑی حد تک خاندانی استحکام کو باقی رکھے ہوئے ہے؛ اس لیے کسبِ معاش بنیادی طور پر مردوں کی ذمہ داری ہے نہ کہ عورتوں کی، عورتوں کو بلا ضرورت آزادی وترقی کے نام پر کسبِ معاش پر مجبور کردینا ایک سماجی ظلم ہے، کہ عورتیں بچوں کی پرورش ونگہداشت اور امورِ خانہ داری وغیرہ اپنے منصبی فرائض بھی انجام دیں، اور اس دوڑ دھوپ میں بھی مردوں کی شریک ہوں۔ عام حالات میں شریعت نے خواتین پر کسبِ معاش کی ذمہ داری تو نہیں رکھی ہے؛ لیکن بحالتِ مجبوری (کسی ایسے شخص کا موجود نہ ہونا جواس کی اور اس کے بچوں کی نفقہ برداری کرسکے)(۲) ، شرعی حدود میں رہتے ہوئے عورت کے لیے کسبِ معاش مباح ہے۔ شرعی حدود یہ ہیں: (۱) شرعی پردہ کی مکمل رعایت ہو۔(۳) (۲)خوشبو کے استعمال سے پرہیز ہو۔(۴) (۳) لباس مردوں کے لیے باعثِ کشش نہ ہو۔(۵) (۴) مردوں کے