محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
فیصد کے حساب سے اجرت مسئلہ(۴۲۹): آج کل بہت سارے ادارے اور افراد اپنے کام کا معاوضہ فیصد (Percentage) کے حساب سے مقرر کرلیتے ہیں، جیسا کہ ’’بینک‘‘ اپنے کام کامعاوضہ سروس چارج (Service Charge) کے نام سے وصول کرتا ہے، اور یہ سروس چارج فیصد کے حساب سے ہوتا ہے، اسی طرح مثلاً ’’اسٹیٹ ایجنسی‘‘ والے بروکر حضرات اصل رقم پر فیصد کے حساب سے اجرت وصول کرتے ہیں، تو شرعاً اس طرح اجرت وصول کرنے کا حکم یہ ہے کہ یہ اجرت جو فیصد کے حساب سے وصول کی جارہی ہے، اگر وہ اجرتِ مثل ہو، یا باہمی رضامندی سے طے ہو تو جائز ہے۔ اس مسئلے کی نظیر وہ مسئلہ ہے جس میں فقہاء کرام رحمہم اللہ نے دلال کی اجرت کے بارے میں بحث کی ہے، کہ دلال کی اجرت بھی فیصد کے حساب سے ہوتی ہے، اس کے بارے میں متأخرین حنفیہ نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ اصول اور قاعدہ کے لحاظ سے تو یہ اجرت جائز نہیں ہونی چاہیے تھی، کیوں کہ اس میں اجرت اور عمل کی مقدار متعین نہیں ہے، لیکن کثرتِ تعامل کی وجہ سے فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا ہے، بشرطیکہ یہ اجرت پہلے سے طے ہو۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : باب أجرۃ السمسرۃ - ولم یر ابن سیرین وعطاء وابراہیم والحسن بأجر السمسار بأساً ، وقال ابن عباس : لا بأس أن یقول : بع ہذا الثوب فما زاد علی کذا وکذا فہو لک ، وقال ابن سیرین : إذا قال : بعہ بکذا وکذا فما کان من ربح فہو لک أو بیني وبینک فلا بأس بہ ۔ (۱/۳۰۳ ، کتاب الإجارۃ ، باب أجر السمسار) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : قال في ’’ التاتر خانیۃ ‘‘ : وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل،=