محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مشترکہ ہوٹل میں کسی شریک کا اپنے دوستوں کو کھلانا مسئلہ(۳۸۸): کچھ لوگ مشترکہ طور پر ہوٹل چلاتے ہیں، اور ان میں سے کسی ایک شریک کے دوست وغیرہ آکر اسی ہوٹل میں چائے ناشتہ وغیرہ بھی کرتے ہیں، اور وہ شخص (جس کے یہ دوست ہیں) ان سے قیمت نہیں لیتاہے، اور دوسر ے شریک بھی تعلق کی بنا پر کچھ نہیں بولتے ، اس کو برداشت کرلیتے ہیں، تو یہ ان کا اس شریک پر احسان ہے، یہ شخص اس احسان کے عوض بے ضابطہ کچھ رقم حسبِ صواب دیدیا کرے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {ہل جزآء الإحسان إلا الإحسان} ۔ [سورۃ رحمٰن :۶۰] {وأحسن کمآ أحسن اللّٰہ إلیک} ۔ (سورۃ القصص : ۷۷) ما في ’’ السنن للنسائي ‘‘ : عن عبد اللّٰہ بن عمر قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ من استعاذ باللّٰہ فأعیذوہ ، ومن سالکم باللّٰہ فأعطوہ ، ومن استجار باللّٰہ فأجیروہ ، ومن أتی إلیکم معروفاً فکافئوہ ، فإن لم تجدوا فادعوا لہ ، حتی تعلموا أن قد کافأتموہ ‘‘ ۔ (۱/۲۷۶ ، باب من سأل باللّٰہ عزّ وجلّ ، سنن أبي داود : ص/۲۳۵ ، باب عطیۃ من سأل باللّٰہ عزّ وجلّ) ما في ’’ عون المعبود ‘‘ : (ومن صنع إلیکم معروفاً) أي أحسن إلیکم إحساناً قولیاً أو فعلیاً (فکافئوہ) من المکافاۃ أي أحسنوا إلیہ مثل ما أحسن إلیکم ۔ (۵/۵۴ ، باب عطیۃ من سال باللّٰہ عزوجل) (فتاوی محمودیہ:۱۴/۱۹۵، کتاب ا لشرکۃ والمضاربۃ)