محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
راہن یا مرتہن کا انتقال ہوجائے مسئلہ(۵۱۰): دو شخصوں نے عقد رہن کیا، اور شئ مرہون پر قبضہ سے پہلے ہی کوئی ایک پاگل ہوگیا، یا مرگیا، یعنی عقد کا اہل نہیں رہا، تو حنفیہ کے نزدیک عقدِ رہن باطل ہوجائے گا(۱)، جب کہ شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک عقدِ رہن باطل نہیں ہوگا، بلکہ راہن کا ولی اس کا قائم مقام ہوجائے گا(۲)، اور مالکیہ کے نزدیک یہ تفصیل ہے کہ اگر راہن عقد کرنے کا اہل نہ رہے، تو یہ عقد باطل ہوجائے گا، لیکن مرتہن اگر عقد کے قابل نہ رہے، تو عقد باطل نہ ہوگا، اس لیے کہ عقد رہن مرتہن کے قول سے مکمل ہوا ہے، اور اس کو باقی رکھنے میں مرتہن کی منفعت بھی ہے، جب کہ عقد کو باطل قرار دینے میں اس کا نقصان ہے، لہٰذا مرتہن کے ولی کو اس کے قائم مقام قرار دے کر عقدِ رہن صحیح ہوگا۔(۳) ------------------------------ الحجۃ عل ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘ : فإن جن أحد العاقدین بعد العقد ، وقبل القبض ، أو عتہ أو مات ، بطل العقد عند الحنفیۃ لزوال أہلیۃ العاقد قبل تمام العقد ۔ (۶/۴۲۴۱) (۲) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : وقال الشافعیۃ في الأصح والحنابلۃ : لا یبطل الرہن ، کالبیع الذي فیہ الخیار، ویقوم ولي المجنون أو المعتوہ مقامہ ، کما یقوم الوارث مقام المیت المورث ۔ (۶/۴۲۴۱ ، شروط القبض) (۳) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : وقال المالکیۃ : یبطل الرہن بموت الراہن أو جنونہ أو إفلاسہ ، أو مرضہ المتصل بموتہ قبل القبض ، ولا یبطل بموت المرتہن ، أو تفلیسہ ، أو الحجر علیہ للجنون ، لأن العقد تم بالقبول ، وفي إمضائہ منفعۃ ظاہرۃ للمرتہن ، فیقوم وارثہ مقامہ في القبض ۔ (۶/۴۲۴۲ ، شروط القبض) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات: ص/۲۵۴)