محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
انسانی عضو قیمتاً یا ہدیۃً دینا مسئلہ(۶۰۳):انسان اپنے بدن کے کسی بھی عضو کا مالک نہیں ہے، کہ وہ اس میں آزادنہ تصرف کرسکے، اسی بنا پر اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنا کوئی عضو کسی دوسرے شخص کو قیمتاً یا بلا قیمت دے، بلکہ انسان اپنے بدن کے اعضا کا صرف نگراں و محافظ ہے(۱) ، ہاں ! اگر کسی مریض کی اضطراری صورت ایسی ہوجائے کہ اس کے دونوں گردے خراب ہوجائیں، ان کو نکال کر ان کی جگہ دوسرے لگانا ضروری ہوجائیں ، اور ماہر معالجوں کے نزدیک جانبری اور زندگی بچانے کے لیے اس عمل کے بغیر کوئی چارہ نہ رہے، بلکہ یہی عمل متعین ہوجائے، اور صحت وبقائے زندگی کا غالب گمان حاصل ہو، اور مریض کے رشتہ داروں میں سے کوئی اپنی رضامندی سے گردہ دینے کے لیے تیار ہوجائے، اور اس دینے کی وجہ سے معطی کی زندگی کو کسی خطرے کا اندیشہ نہ ہو، تو اس کے لیے مریض کو اپنا گردہ دینے کی گنجائش ہوگی ۔ (۲) ------------------------------ = القول الثالث : وہو ان التداوي واجب ما دام ذلک ممکناً ، وہذا رأي جماعۃ من أصحاب الشافعي ، وبعض الحنابلۃ ، ۔۔۔۔۔۔ قال العلامۃ الحموي : اتفق العلماء علی جواز التداوي ، واختلفوا ہل فعلہ أفضل أم ترکہ؟ ۔ (ص/۱۸۹) والحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {ولقد کرّمنا بنيٓ اٰدم} ۔ (سورۃ الإسراء :۷۰) ما في ’’ أحکام القرآن لمفتي جمیل أحمد التھانوي ‘‘ : الآیۃ دلت علی عزّ الإنسان ، مسلماً کان أو کافراً ، وعزّ أجزائہ ، فلا یجوز اہانتہ بترکیبہ في جسد غیرہ أیضاً لا بیعاً ولا ہبۃ ولاصدقۃ ولا وقفاً ۔ (۴/۱۳۱،۱۳۲) ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : العضو یعني الجزء المنفصل من الحي کمیتۃ ، کأذن=