محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
انٹرنیٹ پر عقد اجارہ مسئلہ(۴۲۰): جوازِ بیع کے لیے ایجاب وقبول اور حکماً اتحاد واتصال کافی ہوتا ہے، اور چونکہ انٹرنیٹ کے ذریعہ عقد اجارہ میں کتابت کے ذریعہ ایجاب وقبول اور اتحاد واتصالِ حکمی پایا جاتا ہے، لہٰذا انٹرنیٹ پر عقد اجارہ درست ہے۔(۱) ------------------------------ =لکن ردہ العلامۃ قاسم في تصحیحہ بأن ما في المغني شاذ مجہول القائل فلا یعول علیہ ۔ (در مختار) ۔ وفي الشامیۃ : قولہ : (بالشیوع) أي فیما یحتمل القسمۃ أولا عندہ ، وعلیہ الفتوی ۔ ’’ خانیۃ ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔ قولہ : (علی الظاہر) أي ظاہر الروایۃ عند أبي حنیفۃ ویفسدہا في روایۃ جامع الفصولین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قولہ : (وجوّزاہ بکل حال) أيسواء کان من شریکہ أو لا فیما یحتمل القسمۃ أو لا ، لکن بشرط بیان نصیبہ ، وإن لم یبین لا یجوز في الصحیح ۔ زیلعي ۔ قولہ : (فلا یعوّل علیہ) بال المعوّل علیہ ما في الخانیۃ أن الفتوی علی قول الإمام ، وبہ جزم أصحاب المتون والشروح فکان ہو المذہب ، أفادہ المصنف وعلیہ العمل الیوم ۔ (۹/۶۵، باب الإجارۃ الفاسدۃ ، بیروت ، بدائع الصنائع :۴/۲۵ ، باب شرائط رکن الإجارۃ ، تبیین الحقائق :۶/۱۱۹) ما في ’’ تقریرات الرافعي علی ردّ المحتار ‘‘ : قال الرافعي : قول الشارح (لکن ردہ العلامۃ قاسم الخ) ما سیأتي في المتفرقات یدل علی أن قولہما مفتی بہ أیضًا فانظرہ ونقل ط فیہا أن قولہما مفتی بہ عن المضمرات ۔ اہـ ۔ ونقل أبو السعود في حاشیۃ الأشباہ عند قولہ : وجاز استئجار طریق للمرور أن الفتوی علی قولہما عن المضمرات والفتاوی الصغری والتتمۃ وغیرہا من الکتب المعتمدۃ فالترجیح قد اختلف ۔ وقال في شرح الأشباہ : أکثر المشایخ علی ترجیح قولہ ۔ (۱۴/۷۰۸ ، کتاب الإجارۃ ، باب الإجارۃ الفاسدۃ ، بیروت ، القول الصواب في مسائل الکتاب :ص/۳۱۳) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات: ص ۹۷، فقہ حنفی قرآن وحدیث کی روشنی میں : ۲/۸۷) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : واتحاد المجلس في العقود وغیرہا علی قسمین : حقیقي بأن یکون القبول في مجلس الإیجاب ، وحکمي إذا تفرق مجلس القبول عن مجلس =