محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
عقد مضاربت میں نفع کی تعیین مسئلہ(۴۰۴): عقد مضاربت کرتے وقت اگر مضارب اور رب المال کے مابین مقدارِ نفع کی تعیین نہ ہوئی ہو، تو دونوں حاصل شدہ منافع سے آدھا آدھا وصول کریں گے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : لو قال رب المال المضارب علی أن ما رزق اللّٰہ تعالی من الربح بیننا جاز ویکون الربح بینہما علی السواء ۔ کذا في فتاوی قاضي خان ۔ ولو دفع إلیہ ألف درہم مضاربۃ علی أنہما شریکان فی الربح ولم یبین مقدار ذلک فالمضاربۃ جائزۃ لأن مطلق الشرکۃ یقتضي المساواۃ ۔۔۔۔۔ والربح بینہما نصفان ۔ (۴/۲۸۸ ، کتاب المضاربۃ ، الباب الثاني فیما یجوز من المضاربۃ من غیر تسمیۃ الربح فیہا) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : ولو قال رب المال : علی أن ما رزق اللّٰہ عز وجل فہو بیننا جاز وکان الربح نصفین ، لأن البین کلمۃ قسمۃ ، والقسمۃ تقتضي المساواۃ إذا لم یبین فیہا مقدار معلوم ، قال اللّٰہ عز وشانہ : {ونبّئہم أن المآء قسمۃ بینہم} ۔ (۵/۱۱۱، کتاب المضاربۃ ، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت) ما في ’’ شرح المجلۃ ‘‘ : لکن إذا عبر بالشرکۃ علی الإطلاق کقولہ والربح مشترک بیننا صرف إلی المساواۃ فیقسم الربح مناصفۃ بین رب المال والمضارب ۔ (ص/۷۴۷ ، ۷۴۸ ، دار احیاء التراث العربي بیروت)