محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
خریدنے کا وعدہ کرکے پورا نہ کرنا مسئلہ(۲۰۰): اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے ایک متعین قیمت میں کوئی چیز خریدنے کا وعدہ کرے ، اور وہ شخص اس چیزکو خریدنے والے کے بھروسے پر اپنے پاس رکھے رہا، بعد میں وہ آکر یوں کہے کہ میں اتنی قیمت میں نہیں خریدوں گا، مثلاً خالد حامد سے کہے کہ میں تجھ سے یہ گھڑی پانچ سو روپئے میں خریدوں گا، جب کہ اس گھڑی کی قیمت چار سو روپئے ہے، پھر کچھ ایام گزرنے کے بعد خالد خریدنے سے انکار کردے ،جب کہ حامد اس گھڑی کو کسی اور کے ہاتھ بیچتا ، تو اُسے چار سو روپئے مل جاتے، لیکن اس نے خالد کے بھروسے پر اُسے فروخت نہیں کیا، اب اس صورت میں حامد کوجو سو روپئے کا نقصان اٹھانا پڑ ا، وہ ------------------------------ =ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : البیع ینعقد بالإیجاب والقبول إذا کانا بلفظي الماضي مثل أن یقول أحدہما : بعت ، والآخر : اشتریت ، لأن البیع انشاء تصرف ، والانشاء یعرف بالشرع، والموضوع للاخبار قد استعمل فیہ ، فینعقد بہ ، ولا ینعقد بلفظین أحدہما لفظ المستقبل ۔۔۔۔۔۔ وإذا حصل الإیجاب والقبول لزم البیع ، ولا خیار لواحد منہما إلا من عیب أو عدم رؤیۃ ۔ (۳/۱۸ - ۲۰ ، کتاب البیوع) ما في ’’ عقد البیع لمصطفی أحمد الزرقاء ‘‘ : الوعد المجرد بالبیع أو بغیرہ من العقود أو الأعمال ، کوعد الإنسان لمدین بأن یؤدي عنہ دینہ ، لم یقم لہ الفقہاء وزناً من الوجہۃ القضائیۃ ، أي انہ لا یلزم صاحبہ بالوفاء إلا من الناحیۃ الدینیۃ الأخلاقیۃ ، أما القضاء فلا یجبر علی الوفاء بوعدہ ، والمراد من الوعد المجرد ما لا یشتمل علی إیجاب وقبول قطعیین ، کما لو قال الإنسان لآخر : سأبیعک ، أو : أعدک بأن أبیعک المال الفلاني بکذا ، فہذا من قبیل الوعد المجرد ۔۔۔۔۔ إن الوعد بالبیع ہو اتفاق یتعہد فیہ شخص ببیع شيء من شخص آخر عند ما یختار شراء ہ خلال مدۃ معینۃ ۔ (۱۷۱ ، ۱۷۲ ، الفصل السابع في الوعد بالبیع)