محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
زنا سے ثبوتِ نسب مسئلہ(۱۹۵): کسی شخص کے کسی عورت سے زنا کرنے پر وہ حاملہ ہوجائے، اور وہ اس معاملہ کو دبانے کے لیے اس سے شادی کرلے، اوراس بچے کے اپنے نطفے سے پیدا ہونے کا اقرار کرے، تو محض اُس کے اِس اقرار سے نسب ثابت نہیں ہوگا، بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ بچہ نکاح کے بعد کب پیدا ہوا؟ اگر نکاح سے چھ ماہ بعد، یا اُس سے زائد مدت میں بچہ پیدا ہوا ، تو قضا ء ً نسب ثابت ہوجائے گا، اور اگر نکاح کے بعد چھ ماہ سے کم مدت میں پیدا ہوا ، تو نسب ثابت نہیں ہوگا۔(۱) ------------------------------ والحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن عائشۃ رضي اللہ تعالی عنہا :۔۔۔۔۔۔۔۔ فتساوقا إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال سعد : یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم للہ ! ابن أخي ، کان عہد إليّ فیہ ، فقال عبد بن زمعۃ : أخي وابن ولیدۃ أبي ، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ ہو لک یا عبد بن زمعۃ ، الولد للفراش وللعاہر الحجر ، ثم قال لسودۃ بنت زمعۃ : احتجبي منہ لما رأی من شبہہ بعتبۃ ، فما رآہا حتی لقي اللہ ‘‘ ۔ (۴۹۰ ، کتاب الوصایا ، قول الموصی لوصیہ) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ولو زنی بإمرأۃ فحملت ثم تزوجہا فولدت إن جاء ت بہ لستۃ أشہر فصاعداً ثبت نسبہ ، وإن جاء ت بہ لأقل من ستۃ أشہر لم یثبت نسبہ ۔ (۱/۵۴۰ ، کتاب الطلاق ، الباب الخامس عشر في ثبوت النسب) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : وإذا تزوج رجل إمرأۃ فجاء ت بولد لأقل من ستۃ أشہر منذ یوم تزوجہا لم یثبت نسبہ ، لأن العلوق سابق علی النکاح ، فلا یکون منہ ، وإن جاء ت بہ لستۃ أشہر فصاعدًا یثبت نسبہ منہ ۔۔۔۔۔۔۔ لأن الفراش قائم والمدۃ تامۃ ۔ (۲/۴۳۲ ، کتاب الطلاق ، ثبوت النسب ، العنایۃ شرح الہدایۃ : ۲/۶۱۰ ، کتاب الطلاق ، ثبوت النسب ، الموسوعۃ الفقہیۃ :۱۵/۹ ، ثبوت النسب ، النہر الفائق : ۲/۴۹۱ ، کتاب الطلاق ، ثبوت النسب ، مجمع الأنہر : ۲/۱۵۸ ، کتاب الطلاق ، ثبوت النسب) (فتاوی حقانیہ :۴/۵۶۲)