محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ہے، لہٰذا اس کے استعمال کی اجرت کے طور پر تاجر سے کتاب کے کچھ نسخے لے سکتا ہے(۱)،البتہ اشتہارات کی شرط لگانا جائز نہیں۔(۲)زائد ٹکٹ واپس کرکے پیسہ وصول کرنا مسئلہ(۲۳۱): سفر کے ٹکٹ نکال لیے جانے کے بعد، کسی عذر سے اگر کسی فرد کا یا پوری جماعت کا ارادۂ سفر ملتوی ہوجائے، تو زائد یا پورے ٹکٹ کو واپس کردینا اور اپنا پیسہ وصول کرنا درست ہے۔(۳) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : وأما حق النشر أو التوزیع فیحکمہ العقد أو الاتفاق الحاصل بین المؤلف والناشر أو الموزع ، فیجب علی طرفي الاتفاق الالتزام بمضمونہ من حیث عدد النسخ المطبوعۃ والمدۃ التي یسری فیہا الاتفاق ۔ (۴/۲۸۶۲) ما في ’’ نوازل فقہیۃ معاصرۃ ‘‘ : وبیع حق التالیف والطبع والاختراع قد أجازہ القانون الدولي ، وراجت في العالم کلہ عرفاً وعادۃً ، ویقول سماحۃ الشیخ تقي العثماني حفظہ اللہ مثبتاً أصلہ بالحدیث الذي رواہ أبو داود في کتابہ : ’’ من سبق إلی ما لم یسبقہ مسلم فہو لہ ‘‘ ۔ فالحقیقۃ أن ہذہ الحقوق مباحۃ شرعًا ومنفعۃ ، وراج بیعہا في العرف ، ولذلک یجوز بیعہا ، وإن من الفقہاء والعلماء الکبار قد قالوا إلی جوازہا، وبالأخص الشیخ المفتي محمد کفایۃ اللہ ، والمفتي عبد الرحیم لاجفوري والمفتي نظام الدین حفظہم اللہ من العلماء الہند وفقہائہا۔ (ص/۲۹۸ ، شیخ محمد خالد سیف اللہ رحماني) (احسن الفتاویٰ :۷/۳۱۷ ، کتاب الاجارۃ) (۲) ما في ’’ التنویر الأبصار مع الدر والرد ‘‘ : (و) لا (بیع بشرط) ۔۔۔۔۔ (لا یقتضیہ العقد ، ولا یلائمہ، وفیہ نفع لأحدہما أو) فیہ نفع (لمبیع) ہو (من أہل الاستحقاق) للنفع بأن یکون آدمیاً ۔ (۷/۲۰۶ ، ۲۰۷ ، کتاب البیوع ، مطلب في البیع بشرط فاسد) الحجۃ علی ما قلنا : (۳) ما في ’’ السنن لأبي داود ‘‘ : عن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :=