محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
سرمایہ مضارِب کے حوالے کرنا مسئلہ(۴۰۸):عقد مضاربت طے ہوجانے کے بعد ، سرمایہ مضارب کے حوالے کرنا شرط ہے، حوالے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مالک کا اس پر قبضہ بالکل ختم ہوجائے، اور مضارب کو اس پر تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہو، اگر سرمایہ مالک کے قبضے میں ہے، یا عامل ہر وقت سرمایہ میں تصرف نہیں کرسکتا، تو ایسی صورت میں مضاربت صحیح نہ ہوگی۔ (۱) ------------------------------ = الشافعیۃ أو بإجماع الصحابۃ ، کما قال غیرہ منہم ۔۔۔۔۔ المضاربۃ بالعروض : ذہب الحنفیۃ والمالکیۃ والشافعیۃ وہو ظاہر المذہب عند الحنابلۃ إلی أنہ لا تصح المضاربۃ بالعروض مثلیۃ کانت أو متقومۃ ۔ (۳۸/۴۳ ، المضاربۃ بالعروض) ما في ’’ المبسوط للسرخسي ‘‘ : قال رحمہ اللّٰہ تعالی : ذکر عن إبراہیم والحسن رحمہما اللّٰہ تعالی قال : لا تکون المضاربۃ بالعروض إنما تکون بالدراہم والدنانیر وبہ نأخذ ۔ (۲۱/۳۱ ، باب المضاربۃ بالعروض) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : وأما شروط رأس المال : أولاً : أن یکون رأس المال من النقود الرائجۃ أي الدراہم والدنانیر ونحوہا ، کما ہو الشرط في شرکۃ العنان ، فلا تجوز المضاربۃ بالعروض من عقار أو منقول عند جمہور العلماء ۔ (۵/۳۹۳۲ ، شرکۃ المضاربۃ ، بدائع الصنائع :۸/۹، کتاب المضاربۃ ، فصل في شرائط الرکن) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : رابعاً : أن یکون رأس المال مسلماً إلی العامل لیتمکن من العمل فیہ ، ولأن رأس المال أمانۃ فی یدہ ، فلا یصح إلا بالتسلیم وہو التخلیۃ کالودیعۃ ، ولا تصح المضاربۃ مع بقاء ید رب المال علی المال ، لعدم تحقق التسلیم مع بقاء یدہ ، ویترتب علیہ أنہ لو شرط بقاء ید المالک علی المال فسدت المضاربۃ ۔ (۵/۳۹۳۵ ، بدائع الصنائع :۵/۱۱۷، کتاب المضاربۃ ، الموسوعۃ الفقہیۃ :۳۸/۵۰)(مالی معاملات پر غرر کے اثرات:ص/۲۱۳،۲۱۴)