محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
قرض کی ادائیگی کا ذمہ لینا مسئلہ(۴۸۶):کوئی شخص دوسرے شخص سے یوں کہے کہ؛ ان پندرہ آدمیوں میں سے جس کا قرض تم پر واجب ہے، میں اس کی ادائیگی کا ضامن ہوں، تو ایسی صورت میں مکفول لہ کے لیے تین شرطوں کا ہونا ضروری ہے: (۱) مکفول لہ معلوم ہو۔ (۲) مکفول لہ مجلس عقد میں حاضر ہو۔ (۳) مکفول لہ عاقل ہو(۱)،لہٰذا مذکورہ صورت شرعاً درست نہیں ہے، کیوں کہ اس میں مکفول لہٗ معلوم ومتعین نہیں ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : شروط المکفول لہ : یشترط في المکفول لہ وہو الدائن شروط وہي : أولاً : أن یکون معلوماً ، فلو کفل إنسان لأحد من الناس فلا تجوز الکفالۃ ، لأنہ إذا کان المکفول لہ مجہولاً لا یتحقق المقصود من الکفالۃ وہو التوثق ۔۔۔۔۔۔۔ ثانیاً : أن یکون المکفول لہ حاضراً فی مجلس العقد ۔۔۔۔۔ فلو کفل إنسان لغائب عن المجلس ، فبلغہ الخبر فأجاز لا تجوز الکفالۃ عندہما (أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی) إذا لم یقبل بہ حاضر في المجلس ۔۔۔۔۔۔ ثالثاً : أن یکون المکفول لہ عاقلاً ، ۔۔۔۔۔۔۔ فلا یصح قبول المجنون والصبي غیر الممیز لأنہما لیسا أہلاً لصدور القبول عنہما باعتبارہ رکناً فی العقد ۔ (۶/۴۱۵۵ ، ۴۱۵۶ ، شروط المکفول لہ) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : منہا : أن یکون معلوماً حتی أنہ إذا کفل لأحد من الناس لا تجوز ، لأن المکفول لہ إذا کان مجہولاً لا یحصل ما شرع لہ الکفالۃ وہو التوثق ۔ ومنہا : أن یکون في مجلس العقد ۔ (۴/۶۰۶ ، کتاب الکفالۃ) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات:ص/۳۰۸) (۲) ما في ’’ رد المحتار‘‘ : (ولا تصح بجہالۃ المکفول لہ) ۔ (تنویر الأبصار) ۔ وفي الشامیۃ : قال العلامۃ ابن عابدین الشامي رحمہ اللہ : والحاصل أن جہالۃ المکفول لہ تمنع صحۃ الکفالۃ مطلقاً ۔ (۷/۴۶۰ ،۴۶۱ ، کتاب الکفالۃ ، مطلب في تعلیق الکفالۃ بشرط)