محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مرہون پر قبضے کے لیے راہن کی اجازت مسئلہ(۵۱۲): صحتِ عقدِ رہن کے لیے شی ٔ مرہون پر قبضہ شرط ہے، اور قبضہ کے لیے راہن کی اجازت ضروری ہے، اس کے بعد ہی رہن کے احکام جاری ہوں گے، لیکن اگر مرتہن شئ مرہون پر راہن کی اجازت کے بغیر زبردستی قبضہ کرلے، تو اس صورت میں یہ عقدِ رہن صحیح نہ ہوگا، اور نہ ہی اس کے احکام جاری ہوں گے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘ : أولاً : أن یکون بإذن الراہن ، اتفق العلماء علی أنہ لا بد لصحۃ القبض من إذن الراہن بالقبض ، إذ بہ یلزم الرہن ، ویسقط حق الراہن في الرجوع عن الرہن ، فإن تعدی المرتہن فقبضہ بغیر إذنہ لم یثبت حکمہ وکان بمنزلۃ من لم یقبض رہناً ۔ (۶/۴۲۴۰ ، المطلب الخامس ، شروط القبض) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : منہا : أن یکون بإذن الراہن ؛ لما ذکرنا في الہبۃ أن الإذن بالقبض شرط صحتہ فیما لہ صحۃ بدون القبض وہو البیع فَلأن یکون شرطاً فیما لا صحۃ لہ بدون القبض أولیٰ ، ولأن القبض في ہذا الباب یشبہ الرکن کما في الہبۃ فیشبہ القبول ، وذا لا یجوز من غیر رضا الراہن ، کذا ہذا ۔ (۵/۱۹۹، کتاب الرہن ، الکلام في القبض) ما في ’’ المہذب للشیرازي ‘‘ : لم یلزم من غیر قبض کالہبۃ فإن کان المرہون في ید الراہن لم یجز للمرتہن قبضہ إلا بإذن الراہن ، لأن للراہن أن یفسخہ قبل القبض فلا یملک المرتہن اسقاط حقہ من غیر إذنہ ۔ (۱/۳۰۵ ، بحوالہ مالی معاملات پر غرر کے اثرات:ص/۲۴۹)