محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
رشوت خور کا تحفہ مسئلہ(۳۴۶): رشوت خور واہب (ہدیہ کرنے والا)کا غالب مال حلال ہو، تو اس کا ہدیہ قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، ہاں! اگر یہ معلوم ہو کہ یہ ہدیہ مالِ حرام سے ہے تو قبول کرنا درست نہیں ہے، اور اگر اس کا غالب مال حرام ہو، تو اس کا ہدیہ قبول کرنا شرعاً جائز ودرست نہیں، الا یہ کہ وہ یہ کہے : یہ ہدیہ جو میں آپ کو دے رہا ہوں، حلال مال میں سے ہے، میں نے یہ مال وراثت میں پایا ہے، یا فلاں شخص سے قرض لیا ہے، تو اس صورت میں اس کا ہدیہ قبول کیا جاسکتا ہے۔(۱) ------------------------------ =الحسن : ’’ لیُحِقَّ باطلاً أو یُبطِل حقاً ، فأما أن تدفع فلا بأس ‘‘ ۔ وقال یونس عن الحسن : ’’لا بأس أن یعطي الرجل من مالہ ما یصون بہ عِرضَہ ‘‘ ۔ (۲/۵۴۱ ، مطلب فی وجوہ الرشوۃ) ما في ’’ الأشباہ والنظائر لإبن نجیم ‘‘ : الضرورات تبیح المحظورات ۔ (۱/۳۰۷) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : أہدی إلی رجل شیئاً أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأن حرام فإن کان الغالب ہو الحرام ینبغی أن لا یقبل الہدیۃ ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ بأنہ حلال ورثتہ أو استقرضتہ من رجل ۔ (۵/۳۴۲ ، الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات) ما في ’’ مجمع الأنہر ‘‘ : ولا یجوز قبول ہدیۃ أمراء الجور إلا إذا علم أن أکثر مالہ من حل۔ (۴/۱۸۶، کتاب الکراہیۃ) ما في ’’ الفتاوی البزازیۃ علی ہامش الہندیۃ ‘‘ : غالب مال المہدي إن حلالا لا بأس بقبول ہدیتہ وأکل مالہ ما لم یتعین أنہ من حرام وإن غالب مالہ الحرام لا یقبلہا ولا یأکل إلا إذا قال أنہ حلال ورثہ أو استقرضہ ۔ (۶/۳۶۰ ، الباب الرابع في الہدیۃ والمیراث) (فتاوی محمودیہ : ۱۶/۴۸۱،۴۸۲، کراچی)