محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
افطاری کے وقت سائرن بجانا مسئلہ(۹۸): اگر افطاری کا وقت آسانی سے معلوم نہ ہوتا ہو، تو اطلاع کے طور پر، مسجد سے ہٹ کر کسی اور جگہ گھنٹہ اور سائرن بجانا یا گولہ چھوڑنا جائز ہے(۱)،مسجد کے چھت پر یہ چیزیں نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ یہ احترام مسجد کے خلاف ہے۔(۲) ------------------------------ =والفتوی علی ظاہر الروایۃ ۔۔۔۔۔ فإن وضعتہ في الفرج الداخل وابتل الجانب الداخل منہ دون الجانب الخارج لا یکون ذلک حیضاً ۔ (۱/۲۴۷ ، نوع آخر في بیان أنہ متی یثبت حکم الحیض والاستحاضۃ والنفاس) (جدید مسائل کا حل :ص/۸۴،۸۵، فتاوی حقانیہ :۲/۵۶۵) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : یتسحر بقول عدل وکذا بضرب الطبول ، واختلف في الدیک ، وأما الإفطار فلا یجوز بقول الواحد بل بالمشي ، وظاہر الجواب أنہ لا بأس بہ إذا کان عدلا کما فيالزاہدي ۔۔۔۔۔۔ وبالأولی سماع الطبل أو المدفع الحادث في زماننا لإحتمال کونہ لغیرہ ، ولأن الغالب کون الضارب غیر عدل ، فلا بد حینئذ من التحري فیجوز ۔۔۔۔۔ وقد یقال أن المدفع في زماننا یفسد غلبۃ الظن وإن کان ضاربہ فاسقا ، لأن العادۃ أن الموقت یذہب إلی دار الحکم آخر النہار ، فیعین لہ وقت ضربہ ویعینہ أیضاً للوزیر وغیرہ ، وإذا ضربہ یکون ذلک بمراقبۃ الوزیر وأعوانہ للوقت المعین ، فیغلب علی الظن بہذہ القرائن عدم الخطأ وعدم قصد الإفساد ۔ (۳/۳۴۱ ، ۳۴۲ ، مطلب في جواز الإفطار بالتحري) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وإن أراد أن یتسحر بصوت الطبل السحري فإن کثر ذلک الصوت من کل جانب ، وفي جمیع أطراف البلدۃ فلا بأس بہ ، وإن کان یسمع صوتاً واحداً ان ظاہر مذہب أصحابنا رحمہم اللہ تعالی في ظاہر الروایۃ أنہ یجوز الإفطار بالتحري ، کذا في المحیط ۔ (۱/۱۹۵ ، کتاب الصوم ، الباب الأول في تعریفہ وتقسیمہ الخ) (۲) ما في ’’ الجامع لأحکام القرآن للقرطبي ‘‘ : وتصان المساجد أیضاً عن البیع والشراء وجمیع الأشغال ، لقولہ ﷺ للرجل الذي دعا إلی الجمل الأحمر : ’’ لا وجدت إنما بنیت المساجد لما بنیت لہ ‘‘ ۔ وہذا یدل علی أن الأصل أن لا یعمل في المسجد غیر =