محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
چوری کردہ مال کی خریدوفروخت مسئلہ(۲۸۴):جس چیز کے متعلق قرائن سے یہ معلوم ہو کہ وہ چوری کی ہے، تو اس کی خرید وفروخت درست نہیں ہے(۱)، اگرخرید چکا ہے تو واپس کردے، اگر مالک کا علم ہوجائے، تو اس کے حوالے کردے(۲)، پھر چاہے تو اس سے معاملہ کرکے خرید لے۔قسطوں پر خرید وفروخت مسئلہ(۲۸۵): کسی چیز کے نقد اور اُدھار قیمت میں فرق ہونا منع نہیں ، مگر اُدھار معاملہ کی صورت میں ادائیگی ٔ قیمت کے لیے مدت معلوم ومتعین ہو، اور قسطیں بھی مقرر ہوں (۳)، اور پھریہ نہ ہو کہ کسی قسط کے وقتِ متعین پر وصول نہ ہو نے سے قیمت میں مزید اضافہ کیا جائے، یا وصول شدہ رقوم ہی ضبط ہوجائیں، اورخریدی ہوئی چیز بھی ہاتھ سے چلی جائے، ایسی صورت ہو تو شرعاً یہ معاملہ درست نہیں، بلکہ اس میں سود(۴) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ فیض القدیر ‘‘ : قال علیہ الصلوٰۃ والسلام : ’’ من اشتری سرقۃ وہو یعلم أنہا سرقۃ ، فقد شرک في عارہا وأثمنہا ‘‘ ۔ (۱۱/۵۶۵۴ ، بحوالہ فتاوی محمویہ :۱۶/۸۶) ما في ’’ مجموعۃ الفتاوی لإبن تیمیۃ ‘‘ : بیع الملک بغیر إذن مالکہ ولا ولایۃ علیہ بیع باطل والواجب أن یرد إلی المشتری ما أعطاہ من الثمن ویرد إلی المالک ملکہ ۔ (۱۵/۱۱۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : لا یجوز التصرف فی مال غیرہ بلا إذنہ ولا ولایتہ ۔ (۹/۲۹۱) (۲) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وإذا مات الرجل وکسبہ خبیث فالأولیٰ لورثتہ أن یردّوا المال إلی أربابہ فإن لم یعرفوا أربابہ تصدقوا بہ ۔ (۵/۳۴۹ ، کتاب الکراہیۃ) (فتاوی محمودیہ:۱۶/۸۶،کراچی)=