محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
چچا یا خالو کی نواسی سے نکاح مسئلہ(۱۵۴): چچا یا خالو کی نواسی سے نکاح کرنا جائز ہے، اس لیے کہ جب چچا کی لڑکی اور خالو کی لڑکی سے نکاح جائز ہے، تو ان کی نواسی سے نکاح بدرجہ اَولیٰ جائز ہوگا۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : {حرمت علیکم} إلی قولہ : {وأخوٰتکم وعمّٰتکم وخٰلٰتکم} ۔ [سورۃ النساء :۲۳] ۔ وخص تعالی العمات والخالات بالتحریم دون أولادہنّ ولا خلاف فی جواز نکاح بنت العمۃ وبنت الخالۃ ۔ (۲/۱۵۶، باب ما یحرم من النساء) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : ثم أخبر سبحانہ وتعالی أنہ أحل ما ورآء ذلک بقولہ : {أحل لکم ما ورآء ذلکم} ۔ (سورۃ النسآء :۲۴] ۔ وبنات الأعمام والعمات والأخوال والخالات لم یذکرن فی المحرمات ، فکن مما ورآء ذلک ، فکن محللات ۔ (۳/۴۱۱ ، کتا النکاح ، فصل فی المحرمات بالقربۃ) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : وأما بنات الأعمام والأخوال وبنات العمات والخالات وفروعہن فیجوز التزوج بہن لعدم ذکرن فی المحرمات لقولہ تعالی : {وأحل لکم ما ورآء ذلکم} ۔ ولقولہ تعالی : {یٰٓاَیہا النبي إنا أحللنا لک أزواجک اللاتي اٰتیت اُجورہنّ} ۔ إلی قولہ تعالی : {وبنٰت عمّک وبنٰت عمّٰتک وبنٰت خٰلک وبنٰت خٰلٰتک اللاتی ہاجرن معک} ، وما أحلہ اللہ للرسول ﷺ یحل لأمتہ ما لم یقم دلیل علی أن الحل خاص بالرسول ﷺ ، ولا یوجد دلیل علی الخصوص فشمل الحکم المؤمنین جمیعًا ۔ (۳۶/۲۱۲، محرمات النکاح) (کفایت المفتی:۵/۴۱، کراچی)