محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بلڈ بینک (Blood Bank) کا قیام مسئلہ(۶۱۷): بلڈ بینک کے قیام سے متعلق حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب اعظمی رحمہ اللہ، مفتی دار العلوم دیوبند فرماتے ہیں: ’’جب خون کے استعمال کی گو بدرجہ مجبوری ہی گنجائش ہوگی(۱)، تو چونکہ ایسی مجبوریاں اچانک بھی پیدا ہوجاتی ہیں، اور خون کی بہت زیادہ مقدار کی متقاضی ہوجاتی ہیں، جیسے ریل کے ایکسیڈنٹ کے موقع میں، یا جنگ ومحاربہ کے اندر بسا اوقات بیک وقت بہت زیادہ افراد زخمی ہوجاتے ہیں، او ر ان کی جان بچانے کے لیے ان سب کو خون کا انجکشن دینا ضروری ہوجاتا ہے، اور پھر اس میں بھی مریض کے خون کا نمبر ، اور جو خون چڑھایا جاتا ہے ، اس خون کا نمبر بالکل یکساں ہونا ضروری ہوتا ہے، ورنہ بجائے نفع کے نقصان کا اندیشہ ہوجاتا ہے، اس لیے اِن اچانک پیش آمدہ ضروریات کے لیے ہر نمبر کے خون کا فراہم رکھنا بھی ضروری ہوجاتا ہے، اور مقدار کی تعیین وتحدید معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کافی مقدار میں محفوظ رکھنا ------------------------------ ؒ=فلا یجوز أن یکون شيء من أجزائہ مہاناً مبتذلاً ۔ (۳/۳۹) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : وأما عظم الآدمي وشعرہ فلا یجوز بیعہ لا لنجاسۃ لأنہ طاہر في الصحیح من الروایۃ لکن احتراماً لہ والابتذال بالبیع یشعر بالإہانۃ ۔(۴/۳۳۳ ، کتاب البیوع) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : والآدمي مکرم شرعاً وإن کان کافراً فإیراد العقد علیہ وابتذالہ بہ والحاقہ بالجمادات إذلال لہ ۔۔۔۔۔۔ إلا أن یجاب بأن المراد تکریم صورتہ وخلقتہ ، ولذا لم یجز کسر عظام میت کافر ، ولیس ذلک محل الاسترقاق والبیع والشراء ۔ (۷/۱۷۹، کتاب البیوع ، مطلب الآدمي مکرم شرعاً ولو کافراً)(فتاوی محمودیہ : ۱۸/۳۴۴)=