محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
عاقلہ بالغہ لڑکی کا بادلِ نخواستہ ایجاب وقبول مسئلہ(۱۲۸): اگر عاقلہ بالغہ لڑکی بادلِ نخواستہ ایجاب وقبول کرے، تو شرعاً اس کا نکاح منعقد ہوجائے گا۔(۱) ------------------------------ =۔۔۔ ثم قال في البحر: وإن کانت غائبۃ ولم یسمعوا کلامہا بأن عقد لہا وکیلہا ، فإن کان الشہود یعرفونہا کفی ذکر اسمہا إذا علموا أنہ أرادہا ، وإن لم یعرفوہا لا بد من ذکر اسمہا واسم أبیہا وجدہا ، وجوّز الخصاف النکاح مطلقاً ، حتی لو وکلتہ فقال بحضرتہما : زوجت نفسی من مؤکلتي أو من امرأۃ جعلت أمرہا بیدي فإنہ یصح عندہ۔ (۴/۶۶- ۷۴ ، کتاب النکاح ، مطلب الخصاف کبیر فی العلم ، دیوبند) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : ولم یشترط المصنف الفہم قال فی التجنیس : ولو عقدا عقد النکاح بلفظ لا یفہمان کونہ نکاحاً ہل ینعقد ؟ اختلف المشایخ فیہ ، قال بعضہم ینعقد لأن النکاح لا یشترط فیہ القصد ، یعني بدلیل صحتہ مع الہزل وظاہرہ ترجیحہ ولم یشترط أیضاً تمییز الرجل من المرأۃ وقت العقد للاختلاف لما فی النوازل فی صغیرین قال أبو أحدہما زوجت بنتي ہذہ من ابنک ہذا وقبل ثم ظہر الجاریۃ غلاماً والغلام جاریۃجاز ذلک ۔ (۳/۱۵۰، فتاوی النوازل:ص/۱۶۲، الفتاوی الولوالجیۃ :۱/۳۱۸) (امداد الاحکام: ۳/۲۳۰،۲۳۱) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ مشکوٰۃ المصابیح ‘‘ : عن أبي ہریرۃ رضي اللہ تعالی عنہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : ’’ ثلاث جدہن جد وہزلہن جد : النکاح والطلاق والرجعۃ ‘‘ ۔ رواہ الترمذي وأبوداود ۔ (۲/۲۸۴ ، باب الخلع والطلاق) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : قولہ : (لیتحقق رضاہما) أی لیصدر منہما ما من شأنہ أن یدل علی الرضا ، إذ حقیقۃ الرضا غیر مشروطۃ فی النکاح لصحتہ مع الإکراہ والہزل ۔۔۔۔۔۔۔۔ وأما ما ذکر من أن نکاح المکرہ صحیح إن کان ہو الرجل ، وإن کان ہو المرأۃ فہو فاسد فلم أر من ذکرہ وإن أوہم کلام القہستاني السابق ذلک ، بل عبارتہم مطلقۃ فی أن نکاح المکرہ صحیح کطلاقہ وعتقہ مما یصح مع الہزل ، ولفظ المکرہ شامل للرجل والمرأۃ فمن =