محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ٹھیکیداری کا پیشہ مسئلہ(۴۴۴): حکومت ،کسی ادارے ، یا کسی فرد نے کسی شخص کو کسی کام کا ٹھیکہ دیا،اوراس کی تمام تفصیلات بھی طے کی گئیں، مثلاً ایک اسکول بنانا ہے، جس کا طول وعرض یہ ہوگا، اور تعمیری کام میں استعمال ہونے والا سامان اس کوالٹی کا ہوگا وغیرہ، اور ٹھیکیدار اس کو منظور کرلے، کہ میں اتنے روپئے لے کر یہ کام کردوں گا، تو یہ عقد اجارہ (ٹھیکیداری کا معاملہ) درست ہے(۱)، اور ٹھیکیدار پر لازم ہے کہ طے شدہ تفصیلات کے مطابق کام کو مکمل کرکے دیدے، خواہ اس میں روپیہ برابر خرچ ہو، یا کم زیادہ خرچ ہو، سب درست ہے، کوئی مکان تعمیر کرانا ہو یا سڑک بنوانا ہو، سب کا یہی حال ہے(۲)، البتہ نفع خوری کے جذبے سے طے شدہ تفصیلات کے مطابق کام کرکے نہ دینا ، اور ٹھیکے کی رقم کو زیادہ سے زیادہ پس انداز کرنے کی کوشش کرناشرعاً جائز ودرست نہیں ہے، اور نہ ہی اس طرح کی رقم جائز وحلال ہوگی۔ ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ النتف في الفتاوی ‘‘ : واعلم أن صحۃ الإجارۃ متعلقۃ بشیئین : إعلام الأجر وإعلام العمل ۔ (ص/۳۳۸ ، کتاب الإجارۃ) (فتاوی محمودیہ: ۱۶/۵۷۱،۵۷۲، کراچی) ما في ’’ النتف فی التفاوی ‘‘ : والإجارۃ لا تخلو من وجہین : إما أن تقع علی وقت معلوم أو علی عمل معلوم ، فإن وقعت علی عمل معلوم فلا تجب الأجرۃ إلا بإتمام العمل إذا کان العمل مما لا یصلح أولہ إلا بآخرہ وإن کان یصلح أولہ دون آخرہ فتجب الأجرۃ بمقدار ما عمل ۔ (ص/۳۳۸ ، کتاب الإجارۃ) (۲) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : استأجر لیبنی لہ حائطاً بالآجر والجص وعلم طولہ وعرضہ جاز ۔۔۔۔۔۔ ولو استأجر لحفر البئر إن لم یبین الطول والعرض والعمق جاز استحساناً ، ویؤخذ بوسط ما یعملہ الناس ۔ کذا في الوجیز للکردري ۔ (۴/۴۵۱)