محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مضاربت میں سرمایہ نقد ہو مسئلہ(۴۰۵):کوئی شخص کسی کو گندم دے کر کہے کہ؛ اس کی روٹی بناکر بیچو، جو آمدنی ہوگی اس میں سے اتنا اتنا نفع ہم دونوں کے درمیان ہوگا، تو مضاربت کی یہ صورت درست نہیں ہے، کیوں کہ مضاربت کے صحیح ہونے کے لیے سرمایہ کا نقد کی شکل میں ہونا شرط ہے(۱)، اور یہ شرط یہاں مفقود ہے۔ لیکن اگر اس طرح کی مضاربت کا معاملہ کیا گیا، تو مضارب کو روٹی بنانے کی اجرتِ مثل ملے گی، اور پورا نفع رب المال (مالک نقد) کا ہوگا۔(۲) البتہ اگر کوئی شخص کسی کو رقم دے کر کہے کہ؛ گندم خرید کر ان کی روٹی بناکر بیچو، جو نفع ہوگا ، وہ ہمارے درمیان اتنا اتنا فیصد ہوگا، تو یہ صورت درست ہے، کیوں کہ یہاں سرمایہ نقد کی شکل میں موجود ہے۔ ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : منہا أن یکون رأس المال من الدراہم أو الدنانیر عند عامۃ العلماء ، فلا تجوز المضاربۃ بالعروض ۔۔۔۔۔۔۔ لأن المضاربۃ بالعروض تؤدی إلی جہالۃ الربح وقت القسمۃ ، لأن قیمۃ العروض تعرف بالحرز والظن ، وتختلف باختلاف المقومین والجہالۃ تفضی إلی المنازعۃ ، والمنازعۃ تفضی إلی الفساد ، وہذا لا یجوز ۔ (۸/۱۰- ۱۲، کتاب المضاربۃ ، فصل فی شرائط الرکن) (۲) ما في ’’ الجوہرۃ النیرۃ ‘‘ : فإذا فسدت صارت إجارۃ ؛ لأن الواجب فیہا أجر المثل ۔ (۱/۶۲۴، کتاب المضاربۃ ، بیروت) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات:ص/۲۱۴ - ۲۲۰) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : منہا اعلام مقدار الربح ، لأن المعقود علیہ ہو الربح ، وجہالۃ المعقود علیہ توجب فساد العقد ۔ (۸/۲۳ ، کتاب المضاربۃ ، فصل في شرائط الرکن)