محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
وکالت میں جہالتِ فاحشہ مسئلہ(۴۹۴): ایک شخص کسی سے تجارت کا مال منگوائے، اور وکیل سے صرف یہ کہے کہ؛ میرے لیے کپڑے خرید کر لانا، اورکپڑے کی نوعیت بیان نہ کرے ، تو اس میں جہالتِ فاحشہ پائی جارہی ہے، اس لیے یہ صورت شرعاً درست نہیں ہے۔(۱)کسی چیز کے خریدنے کا مطلق وکیل بنانا مسئلہ(۴۹۵): اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو اپنے لیے گھوڑا خریدنے کا وکیل بنائے، اور مطلق کہے کہ؛ تم میرے لیے گھوڑا خرید لاؤ، تو شرعاً یہ وکالت درست ہے، کیوں کہ اس میں معمولی جہالت پائی جارہی ہے، جو منافی ٔ وکالت نہیں ہے، نیز وکیل اپنے مؤکل کے لیے اس کی مالی حیثیت کا اندازہ لگاکر گھوڑا خریدیگا۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ التنویر مع الدر والرد ‘‘ : لو وکلہ بشراء ثوب أو دابۃ لا یصح وإن سمی ثمناً للجہالۃ الفاحشۃ ۔ (۸/۲۲۰ ، کتاب الوکالۃ ، باب الوکالۃ بالبیع والشراء) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : لا یجوز التوکیل بہ إلا بعد بیان النوع وذلک نحو أن یقول : اشتر لي ثوباً لأن الثوب یقع علی أنواع مختلفۃ من ثوب الإبریسم والقطن والکتان وغیرہما فکانت الجہالۃ کثیرۃ فمنعت صحۃ التوکیل فلا یصح وإن سمی الثمن لأن الجہالۃ بعد بیان الثمن متفاحشۃ ۔ (۵/۲۱ ، کتاب الوکالۃ ، التوکیل بحقوق العباد) ما في ’’ مجمع الأنہر ‘‘ : لا یصح التوکیل بشراء شيء یشمل أجناساً کالرقیق والثوب والدابۃ للجہالۃ الفاحشۃ ۔ (۳/۳۱۳ ، باب الوکالۃ بالبیع والشراء) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات) (۲) ما في ’’ مجمع الأنہر مع الدر المنتقی ‘‘ : الأصل أنہا إن عمت أو علمت أو جہلت =