محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ہاؤسنگ لون مسئلہ(۳۴۹): اگر کسی شخص کو رہنے کے لیے بقدرِ ضرورت ایسا مکان دستیاب ہے، جس میں وہ ہر موسم میں اپنی اور اپنے گھر والوں کی موسمی تکلیفوں سے حفاظت کرسکتا ہے، اس کے باوجود وہ بینک سے سودی قرض لیتا ہے، جس میں اُسے قرض سے زائد رقم ادا کرنی پڑتی ہو، تو اس کا یہ عمل درست نہیں ہے، کیوں کہ یہ سودی معاملہ ہے ، جس کی حرمت کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم للہ اسے واضح طور پر ثابت ہے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {أحل اللّٰہ البیع وحرم الربوا} ۔ (سورۃ البقرۃ :۲۷۵) ما في ’’ التفسیر المنیر ‘‘ : ومن عاد إلی أخذ الربا بعد تحریمہ فقد استوجب العقوبۃ ، حرم اللّٰہ الربا في القرآن کتحریم الخمر ۔ (۲/۹۶ ۔ ۱۰۰) ما في ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : قال أبوبکر : ۔۔۔۔۔۔۔ إن لم تذورا ما بقي من الربا بعد نزول الأمر بترکہ فأذنوا بحرب من اللّٰہ ورسوہ ۔ (۱/۵۷۱ ، باب الربا) ما في ’’ الصحیح لمسلم ‘‘ : عن جابر رضي اللّٰہ عنہ قال : ’’ لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال : ہم سواء ‘‘ ۔ (۲/۲۷ ، باب الربا) ما في ’’ فتح الملہم ‘‘ : قولہ : (وموکلہ) یعني الذي یؤدي الربا إلی غیرہ ، فإثم عقد الربا والتعامل بہ سواء في کل من الآخذ والمعطي ، ثم أخذ الربا أشد من الإعطاء ، لما فیہ من التمتع بالحرام ۔ (۷/۵۷۴ ، باب لعن آکل الربا وموکلہ) ما في ’’ مرقاۃ المفاتیح ‘‘ : (آکل الربا) أي أخذہ وإن لم یأکل ، وإنما خص بالأکل لأنہ أعظم أنواع الانتفاع ۔ (۶/۴۲ ، عون المعبود :ص/۱۴۳۵ ، کتاب البیوع ، باب آکل الربا وموکلہ ، رقم الحدیث : ۳۳۳۳) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : قال الماوردي : إن الربا لم یحل في شریعۃ قط ، لقولہ تعالی : {وأخذہم الربا وقد نہوا عنہ} یعني في الکتب السابقۃ ۔ ]المجموع : ۹/۳۹۱[ ، =