محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بارات کے تاخیر سے آنے پر کسی دوسرے لڑکے سے نکاح مسئلہ(۱۵۸): اگر کوئی شخص لڑکے کی بارات دیر میں آنے کی وجہ سے، اپنی لڑکی کا نکاح کسی دوسرے لڑکے سے دوگواہوں کی موجودگی میں کرادے ، تو شرعاً یہ نکاح درست ہوگا(۱)، البتہ اس کا یہ فعل دھوکہ دہی اور وعدہ خلافی ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : النکاح ینعقد بالإیجاب والقبول بلفظین یعبر بہما عن الماضي ۔۔۔۔۔۔۔۔ ولا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاہدین حرین عاقلین بالغین مسلمین رجلین أو رجل وامرأتین ۔ (۲/۳۰۵ ، ۳۰۶) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : وأما رکن النکاح فہو الإیجاب والقبول وذلک بألفاظ مخصوصۃ أو ما یقوم مقام اللفظ ۔ (۲/۴۸۵ ، المختصر القدوري :ص/۵۰۲ ، کتاب النکاح ، رد المحتار :۴/۶۹، کتاب النکاح) (الفتاوی الہندیۃ :۱/۲۷۰، الباب الثاني فیما ینعقد النکاح وما لا ینعقد) (۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {یٰٓاَیہا الذین اٰمنوٓا اَوفوا بالعقود} ۔ (سورۃ المائدۃ :۱) ما في ’’ مشکوۃ المصابیح ‘‘ : عن أبي ہریرۃ رضي اللہ تعالی عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ آیۃ المنافق ثلاث : إذا حدث کذب ، وإذا وعد أخلف ، وإذا اؤتمن خان ‘‘ ۔ (ص/۱۷) ما في ’’ مرقاۃ المفاتیح ‘‘ : (وإذا وعد أخلف) أی جعل الوعد خلافاً بأن لم یف بوعدہ ، ووجہ المغایرۃ بین ہذہ وما قبلہا ان الاخلاف قد یکون بالفعل ۔ (۱/۲۱۱ ، باب الکبائر وعلامات النفاق)