محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بیع سلم مسئلہ(۲۳۹):بیع سلم ایک ایسی بیع ہے، جس کے ذریعے بائع یہ ذمہ داری قبول کرتا ہے کہ وہ مستقبل کی کسی تاریخ میں متعین چیز خریدار کو فراہم کرے گا، اور اس کے بدلے میں مکمل قیمت بیع کے وقت ہی پیشگی لے لیتا ہے(۱)، اور یہ عقد جائز ہے۔ (۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : ہو بیع آجل وہو المسلم فیہ بعاجل وہو رأس المال ۔ (۷/۳۴۷ ، باب السلم) ما في ’’ تبیین الحقائق ‘‘ : وہو بمعنی السلف لغۃ فإنہ أخذ عاجل بآجل وسمی ہذا العقد بہ لکونہ معجلاً علی وقتہ ۔ (۴/۴۹۸ ، باب السلم) ما في ’’ الدر المنتقی مع مجمع الأنہر ‘‘ : ہو لغۃ کالسلف وزناً ومعنی وشرعاً (بیع آجل) وہو المسلم فیہ (بعاجل) وہو رأس المال ۔ (۳/۱۳۷، باب السلم ، بیروت) (۲) ما في ’’ مجمع الأنہر ‘‘ : وفی الدرر ، وہو مشروع بالکتاب ، وہو قولہ تعالی : {إذا تداینتم بدین} ۔ [البقرۃ :۲۸۲] الآیۃ ، فإنہا تشمل السلم والبیع بثمن مؤجل وتأجیلہ بعد الحلول ، والسنۃ وہي قولہ علیہ الصلاۃ والسلام : ’’ من أسلم منکم فلیسلم فی کیل معلوم ووزن معلوم إلی أجل معلوم ‘‘ وبالإجماع ۔ (۳/۱۳۸، باب السلم) ما في ’’ تبیین الحقائق ‘‘ : وہو مشروع بالکتاب والسنۃ وإجماع الأمۃ ، قال ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما : ’’ أشہد أن اللّٰہ أحلّ السلم المؤجل وأنزل فیہ أطول آیۃ ، وتلا قولہ تعالی : {یٰٓاَیہا الذین اٰمنوا إذا تداینتم بدین إلیٓ أجل مسمًّی فاکتبوہ} ۔ [البقرۃ :۲۸۲] ۔ وقد روینا أنہ علیہ السلام نہی عن بیع ما لیس عند الإنسان ورخص فی السلم ۔ (۴/۴۹۹ ، کتاب البیوع ، باب السلم) (اسلام اور جدید معاشی مسائل : ۵/۱۴۷)