محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
قبضۂ حقیقی و حکمی مسئلہ(۲۰۸): قبضۂ حقیقی: یہ ہے کہ مبیع مشتری کے ہاتھ میں آجائے، یا مبیع تول کر یا ناپ کرکے الگ کردی جائے، یا مبیع قابض کی تحویل میں آجائے۔ قبضۂ حکمی: قبضۂ تقدیری ومعنوی کو کہتے ہیں، جس میں مشتری مبیع پر حساً قبضہ نہیں کرتا، محض مبیع اور مشتری کے درمیان تخلیہ کردیا جاتا ہے، جس کی بنا پر مبیع مشتری کے ضمان میں آجائے، مثلاً عقار(غیر منقولی چیزوں) میں بالاتفاق محض تخلیہ سے قبضۂ حکمی ہوجائے گا، اوراشیائے منقولہ میں بھی محض تخلیہ قبضۂ حکمی شمار ہوگا، بشرطیکہ مبیع کو الگ کردیا گیا ہو۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ التقابض في الفقہ الإسلامي ‘‘ : المراد بالقبض الحقیقي ؛ ہو القبض الذي یدرک بالحس ، کما في حالۃ الأخذ بالید مناولۃً ، أو الکیل أو الوزن في الطعام ، أو النقل والتحویل إلی حوزۃ القابض ۔ (ص/۴۵ ، المطلب الأول ، القبض الحقیقي) ما في ’’ التقابض في الفقہ الإسلامي ‘‘ : والمراد بالقبض الحکمي ؛ ہو القبض التقدیر الذي لا یدرک بالحس کالتخلیۃ ویدخل فیہ جمیع أنواع العقار والمنقولات ، کما تناولنا في القبض الحقیقی القبض في المنقول وفي العقار ۔۔۔۔۔۔۔۔ اتفق الفقہاء علی أن قبض العقار یکون بالتخلیۃ وعلی الإکتفاء بہ في غیر المنقول کالدور والأراضي والأشجار والغرس ۔۔۔۔۔۔۔ واختلف الفقہاء في کیفیۃ القبض الحکمي في المنقول کالحبوب والثمار والنحاس والرصاص ، ہل یکفي فیہ القبض الحکمي (التخلیۃ) أم لا بد فیہ من القبض الحقیقي ؟ ۔۔۔۔۔ القول الثاني : ان التخلیۃ کافیۃ مع التمییز ولو لم یحصل تقدیر أو نقل ، وہذا ہو مذہب الحنفیۃ وقول المالکیۃ والحنابلۃ والشافعیۃ ، جاء في حاشیۃ ابن عابدین : وحاصلہ ان التخلیۃ قبض حکما ولو مع القدر علیہ بلا کلفۃ ، لکن ذلک یختلف بحسب حالۃ المبیع ۔ (ص/۵۳ - ۵۵ ، المبحث الثاني : أقسام القبض وکیفیتہ ، المطلب الثاني ؛ القبض الحکمي)