محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
اَخراجات سے زائد رقم کی جعلی رسید بنوانا مسئلہ(۴۷۶): اگر کسی کمپنی کی طرف سے یہ طے ہو کہ ملازم دورانِ سفر آنے والے تمام اَخراجات خود برداشت کرے، پھر ان کا ثبوت ٹکٹ وغیرہ کی صورت میں جمع کرائے، کمپنی اس کے مطابق اس کو رقم دیدے گی، اس صورت میں اگر کوئی ملازم اَخراجات سے زائد رقم کی جعلی رسید بنواتا ہے، تو یہ دھوکہ دہی ہے، جو شرعاً منع ہے(۱)، لہٰذا اَخراجات سے زائد رقم کی جعلی رسیدیں (Invoices) بنواکر رقم حاصل کرنا ممنوع وحرام ہوگا، اور یہ رقم اس ملازم کے لیے حلال نہ ہوگی، بلکہ متعلقہ کمپنی کو واپس کردینا ضروری ہوگا۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ جامع الترمذي ‘‘ : قال النبي ﷺ : ’’ من غشّنا فلیس منا ‘‘ ۔۔۔۔۔ والعمل علی ہذا عند أہل العلم کرہوا الغش وقالوا : الغش حرام ۔ (۱/۲۴۵ ، أبواب البیوع ، باب ما جاء في کراہیۃ الغش) (۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {لا تأکلوٓا أموالکم بینکم بالباطل إلا أن تکون تجارۃً عن تراض منکم} ۔ (سورۃ النساء :۲۹) ما في ’’ صحیح مسلم ‘‘ : ’’ کل المسلم علی المسلم حرام ؛ دمہ ومالہ وعرضہ ‘‘ ۔ (۲/۳۱۷ ، کتاب البر ، باب تحریم الظن والتجسس والتنافس) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : قال النبي ﷺ : ’’ لا یحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفس منہ ‘‘ ۔ فلا یصح مع الکراہۃ والہزل والخطأ ۔ (۵/۵۳۸ ، کتاب الإجارۃ) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیہم ، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہ ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ ۔ (۷/۲۲۳ ، کتاب البیوع ، مطلب فیمن ورث مالاً حراماً ، الفتاوی البزازیۃ علی ہامش الہندیۃ :۶/۳۶۰ ، کتاب الکراہیۃ ، الرابع في الہدیۃ) (تجارتی کمپنیوں کا لائحہ عمل : ص/۱۰۰)