محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مضارب پر جرمانہ مسئلہ(۴۱۲): زید (رب المال) نے عمر (مضارب) کو افیون کی تجارت کے لیے پیسہ دیا، عمر (مضارب) نے افیون خریدا ،اور اس پر جرمانہ عائد ہوگیا، تو اس نقصانِ جرم کی اگر مالک نے ذمہ داری قبول کرلی ہے، تو مالک پر ضمان لازم ہے، ورنہ مضارب پر ضمان آئے گا۔(۱) ------------------------------ =علی رب المال لأن ما فات جزء من المال بالہلاک یلزم صاحب المال دون غیرہ والمضارب أمین فیہ فلا یلزمہ بالشرط فصار الأصل فیہ أن کل شرط یوجب جہالۃ في الربح أو قطع الشرکۃ فیہ مفسد وما لا فلا ۔ (۵/۵۲۱ ، کتاب المضاربۃ) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : قولہ : (بطل الشرط) کشرط الخسران علی المضارب ۔ (۸/۳۷۶ ، کتاب المضاربۃ ، مجمع الأنہر:۳/۴۴۷) ما في ’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ : (یعود الضرر والخسار في کل حال علی رب المال وإذا شرط أن یکون مشترکا بینہما فلا یعتبر ذلک الشرط) ۔ (مجلۃ) ۔ وفي درر الحکام : یعود الضرر والخسار في کل حال علی رب المال إذا تجاوز الربح إذ یکون الضرر والخسار في ہذا الحال جزئً ا ہالکًا من المال فلذلک لا یشترط علی غیر رب المال ولا یلزم بہ آخر ۔ (۳/۴۵۹ ، بیان أحکام المضاربۃ ، المادۃ : ۱۴۲۸، شرح المجلۃ لسلیم رستم باز: ص/۷۵۷ ، المادۃ : ۱۴۲۸، الفصل الثالث فی بیان أحکام المضاربۃ) (فتاوی محمودیہ: ۱۴/۲۲۶،۲۲۷، کراچی، فتاوی حقانیہ: ۶/۳۴۷،۳۴۸) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : ولا رجوع لہ فیما أنفقہ في الخصومۃ لتقاضي الدین ۔ (۷/۴۵۹) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : الأصل أن ما یفعلہ المضارب ثلاثۃ أنواع : نوع یملکہ بمطلق المضاربۃ ، وہو ما یکون من باب المضاربۃ وتوابعہا ، ومن جملتہ التوکیل بالبیع والشراء للحاجۃ والرہن ۔۔۔۔ ونوع لا یملکہ بمطلق العقد ویملکہ إذا قیل لہ : اعمل برأیک ۔۔۔۔۔=