محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
آبِ زم زم کی تجارت مسئلہ(۴۳۱): آبِ زمزم کی تجارت میں بظاہر کوئی امر، مانعِ جواز نہیں، کہ وہ متقوم بھی ہے(۱)، اور احراز سے ملک بھی ثابت ہوجاتی ہے (۲)، نیزبلا نکیر ماء زمزم کے بیچنے کا تعامل بھی ہے(۳)، محض متبرک ہونا بیع کے لیے مانع نہیں بن سکتا، کیوں کہ قرآن کریم سب سے زیادہ متبرک ہونے کے باوجود اس کی بیع وشرا سب جائز ہے (۴)،اور خریدار کا کافر ہونا بھی بظاہر مانعِ صحتِ بیع نہیں (۵) ، ہاں! احتمالاً مخل احترام ہونے کی بنا پر خلافِ اولیٰ یا مکروہ کہا جاسکتا ہے۔ (۶) ------------------------------ =(۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {فابعثوٓا أحدکم بورقکم ہذہٖٓ إلی المدینۃ فلینظر أیہآ أزکی طعامًا} ۔ (سورۃ الکہف : ۱۹) ما في ’’ جامع الترمذي ‘‘ : عن حکیم بن حزام ، أن رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہ ﷺ بعث حکیم بن حزام لیشتري لہ أضحیۃ بدینار ، فاشتری أضحیۃ فاربح فیہا دیناراً ، فاشتری أخریٰ مکانہا ، فجاء بالأضحیۃ والدینار إلی رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہ ﷺ ، فقال : ’’ ضحّ بالشاۃ وتصدّق بالدینار ‘‘ ۔ (۱/۲۳۸ ، أبواب البیوع) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : قال : کل عقد جاز أن یقعدہ الإنسان بنفسہ ، جاز أن یؤکلہ بہ غیرہ ، لأن الإنسان قد یعجز عن المباشرۃ بنفسہ علی اعتبار بعض الأحوال ، فیحتاج إلی أن یؤکل بہ غیرہ ، فیکون بسبیل منہ دفعاً للحاجۃ ، وقد صح أن النبي ﷺ وکل بالشراء حکیم بن حزام وبالتزویج عمر بن أم سلمۃ ۔ (۳/۱۷۷ ، کتاب الوکالۃ) (احسن الفتاویٰ :۶/۵۲۴، جدید مسائل کا حل:ص/۲۱۹) ما في ’’ جمہرۃ القواعد الفقہیۃ ‘‘ : ’’ قبض الوکیل کقبض مؤکلہ ‘‘ ۔ (۲/۸۰۳ ، القاعدۃ : ۱۳۳۸) ما في ’’ جمہرۃ القواعد الفقہیۃ ‘‘ : ’’ فعل الوکیل کفعل المؤکل ‘‘ ۔ (۲/۸۰۰ ، القاعدۃ : ۱۳۱۸) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في’’ البحر الرائق ‘‘ : وأما شرائط المعقود علیہ فأن یکون موجوداً مالاً متقوماً مملوکاً في نفسہ ۔ (۵/۴۳۳ ، کتاب البیوع)=