محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بیع المزابنۃ مسئلہ(۲۹۵): درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو کٹی ہوئی کھجوروں کے بدلے میں اندازے کے ساتھ بیچنا ’’ بیع مزابنہ ‘‘ کہلاتا ہے، اس بیع کے عدم جواز پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔(۱)نوٹ: بیع مزابنہ کی ذکر کردہ تعریف سے اگر چہ یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ اس کا تعلق صرف کھجوروں سے ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ بیع مزابنہ کی تعریف میں کھجوروں کا ذکر محض اس لیے وارد ہوا ہے کہ عربوں کے یہاں یہ معاملہ کھجوروں میں زیادہ مروّج تھا، ورنہ فقہائے کرام کے نزدیک اس ممانعت کا تعلق کھجور کے علاوہ اور چیزوں سے بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک انگور میں بھی بیع مزابنہ درست نہیں ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضی اللّٰہ تعالی عنہما ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہی عن المزابنۃ ‘‘ ۔ (۱/۲۹۱ ، باب بیع المزابنۃ) ما في ’’ صحیح مسلم ‘‘ : عن جابر بن عبد اللّٰہ قال : ’’ نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المحاقلۃ والمزابنۃ والمخابرۃ ‘‘ ۔ (۲/۱۰، باب النہي عن المحاقلۃ) ما في ’’ تکملۃ فتح الملہم ‘‘ : إن الفقہاء اتفقوا علی تحریم بیع المزابنۃ ۔ (۱/۴۰۷ ، کتاب البیوع) ما في ’’ الہدایۃ شرح البدایۃ ‘‘ : قال : وبیع المزابنۃ وہو بیع الثمر علی النخیل بتمر مجذوذ مثل کیلہ خرصاً ۔ (۳/۴۴ ، فصل ومن باع دارا دخل بناؤہا في البیع ، المکتبۃ الإسلامیۃ) (۲) ما في ’’ تکملۃ فتح الملہم ‘‘ : وہو حرام لکونہ مجازفۃ فی الربویات ، فإن ما علی الشجر لا یکال وإنما یباع خرصًا ، فإذا بیع بجنسہ خرصًا کان فیہ احتمال التفاضل واحتمال التفاضل في الربویات في حکم الربا ۔ (۱/۴۰۶ ، کتاب البیوع) (غرر کی صورتیں:ص/۲۲۵)