محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
جہاز میں کرایہ پر لی ہوئی جگہ کرایہ پر دینا مسئلہ(۴۳۳): کسی شخص نے اپنا سامان روانہ کرنے کے لیے ، بحری جہاز میں کوئی جگہ کرایہ پر لی ہو ، اب وہ اپنی اس جگہ کو نفع کے ساتھ دوسرے کو کرایہ پر دے رہا ہو، تو یہ اجارۃ علی الاجارۃ (اجارہ در اجارہ)کہلائے گا، اوریہ صورت اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ یہ اجارہ اجرتِ اُولیٰ یا اس سے کم پر ہو، نفع کے ساتھ نہ ہو، اگر نفع کے ساتھ کرایہ پر دیا، تو اس اضافی رقم کو فقراء پر صدقہ کرنا ہوگا، ہاں ! اگراجارۂ اُولیٰ اور اجارۂ ثانیہ دونوں کی اجرت خلافِ جنس ہو، یا مستاجر اول اجرت پر لی ہوئی چیز میں کوئی اضافہ کرے، یا اس کی اصلاح کرے، تو ان صورتوں میں اجارۂ ثانیہ اجارۂ اُولیٰ سے زیادہ پر بھی جائز ہوگا۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وإذا استأجر داراً وقبضہا ثم آجرہا فإنہ یجوز إن آجرہا بمثل ما استأجرہا أو أقل وإن آجرہا بأکثر مما استأجرہا فہي جائزۃ أیضاً إلا أنہ إن کانت الأجرۃ الثانیۃ من خلاف جنسہا طابت لہ الزیادۃ ولو زاد فی الدار زیادۃ کما لو وتد فیہا وتداً أو حفر فیہا بئراً أو طیناً أو أصلح أبوابہا أو شیئاً من حوائطہا طابت لہ الزیادۃ ۔ (۴/۴۲۵ ، کتاب الإجارۃ ، الباب السابع في إجارۃ المستأجر) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : قولہ : (للمستأجر أن یؤجر المؤجر من غیر مؤجرہ ، وأما من مؤجرہ فلا) یجوز ۔۔۔۔۔۔ قال العلامۃ : أي ما استأجرہ بمثل الأجرۃ الأولیٰ أو بانقص ، فلو أکثر تصدق بالفضل إلا في مسألتین ، کما مر أول باب ما یجوز من الإجارۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔ عن الخلاصۃ أن المستأجر الثاني إذا آجرہا من المستأجر الأول یصح ۔ (۹/۱۰۷، کتاب الإجارۃ ، مسائل شتی ، مطلب في إجارۃ المستأجر) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : جمہور الفقہاء (الحنفیۃ والمالکیۃ والشافعیۃ والأصح عند=