محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
والدین کی اجازت کے بغیر جماعت میں جانا مسئلہ(۲۲): اگر والدین کو خدمت واعانت کی ضرورت ہو، ان کا خرچہ جماعت میں جانے والے شخص پر لازم ہو، اور اس کے علاوہ ان کے گذارے کی کوئی شکل نہ ہو، تو اِس صورت میں والدین اگر جماعت میں جانے سے منع نہ کریں، تب بھی جماعت میں جانا درست نہیں ہے(۱)، کیوںکہ والدین کی خدمت فرضِ عین ہے، اور تبلیغی جماعت میں جانا فرضِ کفایہ ہے، اور فرضِ عین فرضِ کفایہ پر مقدم ہوتا ہے (۲)، البتہ اگر والدین صحیح وتندرست ہوں، انہیں خدمت واعانت کی ضرورت نہ ہو، اور وہ خود مالدار ہوں، تو اس صورت میں ان کی اجازت کے بغیر بھی جماعت میں جانے کی گنجائش ہے (۳)۔ تاہم ایسی روش اختیار نہ کی جائے جس سے والدین ناراض ہوں۔(۴) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {ووصّینا الإنسان بوالدیہ احسانا} ۔ (سورۃ الإسراء :۲۳) ما في ’’ مشکوۃ المصابیح ‘‘ : عن أبی ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ قال : قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم للہ ﷺ: ’’ رغم أنفہ ، رغم أنفہ ، رغم أنفہ ‘‘ ، قیل : من یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم للہ ؟ قال : ’’ من أدرک والدین عند الکبر أحدہما أو کلاہما ثم لم یدخل الجنۃ ‘‘ ۔ (ص/۴۱۸ ، باب البرّ والصلۃ) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : إذا أراد الرجل أن یسافر لتجارۃ أو حج أو عمرۃ أو غیرہا ، وکرہ ذلک أبواہ ، فإن کان یخاف الضیعۃ علیہما بأن کان معسرین ونفقتہما علیہ فإنہ لا یخرج بغیر إذنہا ۔ (۵/۳۶۵) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : السفر ما لا خطر فیہ کالسفر للتجارۃ والحج ، والعمرۃ یحل بلا إذن إلا إن خیف علیہما الضیعۃ ۔ (۶/۱۵۵ ، کتاب الجہاد) (۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : فرض العین أفضل من فرض الکفایۃ ، لأنہ مفروض حقاً =