محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بیمار کی نماز مسئلہ(۵۲):بیمار آدمی کے لیے فرض نماز بیٹھ کر پڑھنا اس وقت جائز ہے، جب کہ وہ قیام پر قادر نہ ہو ،مثلاً: کھڑا ہو تو گر جائے یا سر چکرائے ، یا مرض کے بڑھ جانے یا شفا میں تاخیر ہونے کا اندیشہ ہو، یا کھڑے ہونے میں سخت تکلیف ہوتی ہو وغیرہ۔ لیکن اگر وہ تکبیرِ تحریمہ کہنے کے بقدر بھی قیام کرسکتا ہو، تواسے چاہیے کہ کھڑاہوکر تکبیرِ تحریمہ کہے، پھر بیٹھ کر یا ٹیک لگا کر نماز مکمل کرلے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ سنن أبي داود ‘‘ : عن عمران بن حصین قال : کان بي الناصور فسألت النبي ﷺ فقال : ’’صلّ قائماً ، فإن لم تستطع فقاعداً ، فإن لم تستطع فعلی جنب ‘‘ ۔ (ص/۱۳۷ ، باب في الصلاۃ القاعد ، جامع الترمذي :۱/۸۵) ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : من تعذر علیہ القیام لمرض قبلہا أو فیہا أو خاف زیادتہ أو بطء برئہ بقیامہ أو دوران الرأس أو وجد لقیامہ ألماً شدیداً صلی قاعداً کیف شاء برکوع وسجود ، وإن قدر علی بعض القیام ولو متکئاً علی عصا أو حائط قام لزوم بقدر ما یقدر ولو قدر آیۃ أو تکبیرۃ علی المذہب ، لأن البعض معتبر بالکل ۔ (۲/۴۹۳ ، باب صلاۃ المریض) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : إذا عجز المریض عن القیام صلی قاعداً یرکع ویسجد ۔ کذا في الہدایۃ ۔ وأصح الأقاویل في تفسیر العجز أن یلحقہ بالقیام ضرر ، وعلیہ الفتوی ۔ کذا في المعراج الدرایۃ ۔ وکذلک إذا خاف زیادۃ المرض أو أبطأ البرء بالقیام أو دوران الرأس ۔ کذا في التبیین ۔ أو یجد وجعاً لذلک ، فإن لحقہ نوع مشقۃ لم یجز ترک ذلک القیام ۔ کذا في الکافي ۔ ولو کان قادراً علی بعض القیام دون تمامہ یؤمر بأن یقوم قدر ما یقدر حتی إذا کان قادرًا علی أن یکبر قائماً ولا یقدر علی القیام للقراء ۃ ، أو کان قادراً علی القیام لبعض القراء ۃ دون تمامہا یؤمر بأن یکبر قائماً ویقرأ قدر ما یقدر علیہ ثم یقعد إذا عجز ۔ (۱/۱۳۶ ، صلاۃ المریض)=