محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
دوپٹہ اڑھانے سے نکاح نہیں ہوتا مسئلہ(۱۳۴): آج کل یہ َرواج ہے کہ جب لڑکی پسند آجاتی ہے، تو لڑکے والے اس کے سر پر دوپٹہ اڑھا دیتے ہیں(جس کو ’’ہری بیل‘‘ یا ’’رسم‘‘ کہتے ہیں)، اور یہ سمجھتے ہیں کہ نکاح ہوگیا، جب کہ شریعت کا حکم یہ ہے کہ محض دوپٹہ اڑھانے سے نکاح نہیں ہوتا، بلکہ نکاح کے لیے ایجاب وقبول کا ہونا ضروری ہے، اور دو گواہوں کا ہونا شرط ہے۔(۱) ------------------------------ = للفتویٰ روایۃ الحسن ۔ (۱/۲۹۲، کتاب النکاح ، باب الاکفاء ، البحر الرائق:۳/۱۹۴، باب الأولیاء والأکفاء) (۳) ما في ’’ الفتاویٰ الہندیۃ ‘‘ : وإذا زوجت نفسہا من غیر کفو ورضی بہ أحد الأولیاء ، لم یکن لہذا الولي ولا لمن مثلہ أو دونہ حق الفسخ ۔ (۱/۲۹۳، الباب الخامس باب الأولیاء والأکفاء ، البحر الرائق :۳/۱۹۴، باب الأولیاء والأکفاء) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وأما إذا لم یکن لہا ولي فہو صحیح نافذ مطلقاً اتفاقاً ۔ (۴/۱۱۶، باب الولي ، الفتاوی الہندیۃ :۱/۱۹۲، الباب الخامس في الأکفاء ، البحر الرائق:۳/۱۹۴، باب الأولیاء والأکفاء ، بیروت) (فتاویٰ محمودیہ: ۱۱/۶۱۶،۶۱۷، کراچی) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ التنویر مع الدر والرد ‘‘ : وینعقد بإیجاب وقبول وضعاً للمضي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وشرط حضور شاہدین حرین مکلفین سامعین قولہما معاً ۔ (۴/۶۸-۹۱، کتاب النکاح ، بیروت) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : النکاح ینعقد بالإیجاب والقبول بلفظین یعبر بہما عن الماضي ۔۔۔۔۔ ولا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاہدین حرین عاقلین بالغین مسلمین ۔ (۲/۳۰۵ ، ۳۰۶ ، کتاب النکاح) ما في ’’ تبیین الحقائق ‘‘ : قال رحمہ اللہ تعالی : (وینعقد بإیجاب وقبول وضعاً للمضي أو أحدہما) أي ینعقد النکاح بالإیجاب والقبول بلفظین وضعاً للماضي ، أو وضع أحدہما =