محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مخلوط مالِ شرکت ہلاک ہوجائے مسئلہ(۳۹۸): دو شریکوں نے اپنا اپنا مال اس طرح مخلوط کردیا کہ اب وہ قابلِ امتیاز نہ رہا، اور پھر اس مال کے عوض خریداری سے پہلے کچھ مال ہلاک ہوجائے، تو نقصان دونوں کے مال کی طرف لوٹے گا، نہ کہ کسی ایک کے مال کی طرف۔(۱) ------------------------------ =یکون ہبۃ من الألفاظ وما لا یکون وفصل في ہبۃ المشاع) ما في ’’ تبیین الحقائق ‘‘ : وقولہ في محوز مقسوم ومشاع لا یقسم ، لا فیما یقسم أي تجوز الہبۃ في محوز مقسوم وفي مشاع لا یقسم ، ولا تجوز فی مشاع یقسم ۔۔۔۔۔ وقال شیخ الإسلام علاء الدین الإسبیجابي في شرح الکافي : ۔۔۔۔۔ وکذا إن وہب لہ نصیباً ففي بیت کبیر لم یجز لأن البیت یقسم ، وکل شيء یقسم لا یجوز ، وہذا عندنا خلافاً للشافعي ۔ (۶/۵۲ ، کتاب الہبۃ) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : ومنہا : أن یکون محوزاً، فلا تجوز ہبۃ المشاع فیما یقسم ، وتجوز فیما لا یقسم کالعبد والحمام والدن ونحوہا ، وہذا عندنا ، وعند الشافعي لیس بشرط ، وتجوز ہبۃ المشاع فیما یقسم وفیما لا یقسم عندہ ۔ (۸/۹۶، ۹۷، کتاب الہبۃ ، فصل في شرائطہا) (فتاوی حقانیہ: ۶/۳۷۴، ۳۷۵) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : (وتبطل) الشرکۃ (بہلاک المالین أو أحدہما قبل الشراء) والہلاک علی مالکہ قبل الخلط وعلیہما بعدہ ۔ (وإن اشتری أحدہما بمالہ وہلک) بعدہ (مال الآخر) قبل أن یشتري بہ شیئاً ۔ [در مختار] ۔ وفي الشامیۃ : قولہ : (وإن اشتری أحدہما) بیان لمفہوم تقیید الہلاک بما قبل الشراء ۔ (۶/۳۸۰ ، کتاب الشرکۃ ، مطلب فیما یبطل الشرکۃ) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : وأیہما ہلک ہلک من مال صاحبہ ، إن ہلک فی یدہ فظاہر ، وکذا إذا کان في ید الآخر لأنہ أمانۃ في یدہ بخلاف ما بعد الخلط حیث یہلک علی الشرکۃ لأنہ لا یتمیز فیجعل الہلاک من المالین ۔ (۵/۲۹۵ ، کتاب الشرکۃ ، الفقہ الإسلامي=