محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مقروض کی کسی چیز سے نفع اٹھانا مسئلہ(۳۵۶): کسی شخص پر کسی کا قرض ہو، اور اس کے قرض کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے قرض خواہ اُس کی کوئی چیز اٹھا کر لے جائے اور اسے استعمال کرے، تو اس کا یہ عمل شرعاً جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ قرض کی بنیاد پرفائدہ اٹھانا ہے، جو شرعاً ناجائز ہے(۱)، البتہ مقروض، قرض کی ادائیگی پر قادر ہونے کے باوجود ،قرض ادا نہ کرے، تو فقہاء کرام نے قرض خواہ کے لیے مقروض کی کسی بھی چیز کو لینے کی اجازت دی ہے، لیکن اس صورت میں جو بھی چیز لی جائے گی، اگر اس کی قیمت قرض کی بقدر ہے، تب توٹھیک ہے، لیکن اگر اس کی قیمت زائد از قرض ہے، تو اس زائد قیمت کا واپس کرنا لازم ہوگا، ورنہ یہ بھی سود ہوگا، جو نا جائز وحرام ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ فیض القدیر للمناوي ‘‘ : عن علي قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ کل قرض جر نفعاً فہو رباً ‘‘ ۔ (۵/۲۸) (۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : قال الحموي في شرح الکنز نقلا عن العلامۃ المقدسي ، عن جدہ الأشقر ، عن شرح القدوري للأخصب : إن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس کان في زمانہم لمطاوعتہم في الحقوق ، والفتوی الیوم علی جواز الأخذ عند القدرۃ من أي مال کان لا سیما في دیارنا لمداومتہم العقوقَ ، عفاء علی ہذا الزمان فإنہ زمان عقوق لا زمان حقوق ، وکل رفیق فیہ غیر مرافق ، وکل صدیق فیہ غیر صدوق ۔ (۵/۹۵ ، مکتبہ نعمانیہ) (کفایت المفتی: ۸/۱۴۰)