محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بیع صرف مسئلہ(۲۰۳): ’’بیع صرف‘‘ یعنی ثمن کی بیع ثمن کے عوض کرنا(۱)جائز ہے، بیع صرف میں عوضین چوں کہ ثمن ہوتے ہیں، اس لیے اس میں مجلسِ عقد میں قبضہ کرنا ضروری ہے،اُدھار جائز نہیں، نیز جب عوضین متحد الجنس ہوں(یعنی دونوں کی جنس ایک ہومثلاً؛سونے کو سونے کے عوض ، یا چاندی کو چاندی کے عوض بیچا جارہا ہو)، تو تفاضل (کمی بیشی) درست نہیں ہے، اور اگر متحد الجنس نہ ہوں، مثلاً؛ سونے کو چاندی کے عوض ، یا چاندی کو سونے کے عوض بیچا جارہا ہو، تو تفاضل جائز ہے۔ (۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ کتاب التعریفات ‘‘ : الصرف في الشریعۃ بیع الأثمان بعضہا ببعض ۔(ص/۱۳۶) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : ہو بیع بعض الأثمان ببعض کالذہب والفضۃ إذا بیع أحدہما بالآخر أی بیع ما من جنس الأثمان بعضہا ببعض ۔ (۷/۳۲۱ ، کتاب الصرف) ما في ’’ تنویر الأبصار مع الدر المختار ‘‘ : بیع الثمن بالثمن ۔ (۷/۴۰۲) (۲) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن أبی المنہال قال : سألت البراء بن عازب وزید بن أرقم عن الصرف ، فکل واحد منہما یقول : ہذا خیر منی ، فکلاہما یقول : ’’ نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع الذہب بالورق دینا ‘‘ ۔ (۱/۲۹۱ ، باب بیع الورق بالذہب نسیئۃ) ما في ’’ الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید ‘‘ : شرع الصرف بالسنۃ النبویۃ الشریفۃ ، فقد ورد في مشروعیتہ عدد من الأحادیث الشریفۃ ، منہا : حدثنا عبد اللہ بن أبي بکرۃ قال : قال أبو بکرۃ رضی اللہ تعالی عنہ : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ لا تبیعوا الذہب بالذہب إلا سواء بسواء، والفضۃ بالفضۃ إلا سواء بسواء ، وبیعوا الذہب بالفضۃ ، والفضۃ بالذہب کیف شئتم ‘‘ ۔ (۴/۳۱۷) (قاموس الفقہ : ۴/۲۲۴)