محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ذکر ِجہری مسئلہ(۲۵): ذکرِ جہری(بلند آواز سے ذکر) احادیثِ مبارکہ اور بہت سارے اقوالِ فقہاء سے ثابت ہے(۱)، البتہ کسی عارض کی وجہ سے ممنوع ہوسکتا ہے، مثلاً:ذکرِ جہری کی وجہ سے نمازیوں، تلاوت کرنے والوںیا سونے والوں کو اذیت پہنچتی ہو ، یا ریاء کا خوف ہو، تو ایسی صورت میں سرّی (آہستہ آواز میں )ذکر کرنا چاہیے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ حاشیۃ الطحطاوي ‘‘ : الجہر أفضل لأحادیث کثیرۃ ، منہا ما رواہ ابن الزبیر کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا سلم من صلوتہ قال بصوتہ الأعلی : لا إلہ إلا اللہ ، لا شریک لہ ، وقد کان ﷺ یأمر من یقرأ القرآن في المسجد أن یسمع قراء تہ ۔ (ص/۱۷۴) (۲) ما في ’’ حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح ‘‘ : وأجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر اللہ تعالی جماعۃ فی المساجد وغیرہا من غیر نکیر إلا أن یشوش جہرہم بالذکر علی نائم أو مصلی أو قارئ قرآن کما ہو مقرر فی کتب الفقہ ۔ (ص/۱۷۴) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وقد حرر المسئلۃ في الخیریۃ وحمل ما في فتاوی قاضي خان علی الجہر المفرط ، وقال : إن ہناک أحادیث اقتضت طلب الجہر وأحادیث طلب الإسرار ، والجمع بینہما بأن ذلک یختلف بإختلاف الأشخاص والأحوال ، فالإسرار أفضل حیث خیف الریاء أو تأذی المصلین أو النیام ، والجہر أفضل حیث خلا مما ذکر ، لأنہ أکثر عملاً ومتعدی فائدتہ إلی السامعین ، ویوقظ قلب الذکر فیجمع ہمہ إلی الفکر ، ویصرف سمعہ إلیہ ویفرد النوم ، ویزید النشاط ۔ (۹/۴۸۶) (فتاویٰ محمودیہ : ۴/۴۲۸،۴۲۹، ۴۳۰، کراچی)