محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بیع اور وعدۂ بیع میں فرق مسئلہ(۱۹۹): قطعی ایجاب وقبول کو ’’بیع‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد متعاقدین میں سے کسی کو بھی اس بیع کے خلاف کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ اور وعدۂ بیع میں چوں کہ متعاقدین قطعی ایجاب وقبول نہیں کرتے، بلکہ دونوں اس بات پر محض اتفاق ومعاہدہ کرلیتے ہیں کہ مدتِ معینہ میں مشتری جب بھی چاہیگا، بائع اپنی چیز اس کے ہاتھ بیچ دے گا۔ اس وعدۂ بیع کو اخلاقی طور پر پورا کرنا لازم ہے، قانوناً اس وعدہ کو پورا کرنے پر جبر نہیں کیا جاسکتا،اگر بائع وعدہ خلافی کرتے ہوئے اپنی چیز شخصِ مذکور (جس سے وعدۂ بیع ہوچکا تھا) کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ فروخت کردے، تو یہ بیع بھی صحیح ہوجائے گی، اگرچہ ایسا کرنا اخلاق ومروت کے خلاف ہے۔ محض وعدۂ بیع سے نہ بائع ثمن کا مستحق ہوتا ہے، اور نہ ہی مشتری مبیع کا مالک ہوتا ہے، لہٰذا مشتری وعدۂ بیع کے مکمل ہونے ( قطعی ایجاب وقبول) سے پہلے مبیع کو ، آگے کسی اور شخص کے ہاتھ فروخت نہیں کرسکتا، ورنہ یہ غیر مملوک کی بیع ہوگی، جو شرعاً منع ہے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : (ویکون بقول أو فعل ، أما القول فالإیجاب والقبول) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (وہما عبارۃ عن کل لفظین ینبئان عن معنی التملّک والتملیک ماضیین) ۔۔۔ (أو حالین) کمضارعین لم یقرنا بسوف والسین کأبیعک فیقول : أشتریہ ، أو أحدہما ماض والآخر حال ، (و) لکن (لا یحتاج الأول إلی نیۃ بخلاف الثاني) فإن نوی بہ الإیجاب للحال صحَّ علی الأصحِّ وإلا لا ۔ (۷/۱۰، ۱۷، ۱۸ ، کتاب البیوع)=