محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
جہاز میں لَدے ہوئے مال کا بیمہ مسئلہ(۳۶۸): اگر بیمہ کمپنی جہاز میں لدے ہوئے مال کا بیمہ کرائے ، تو یہ مالکِ جہاز کی کفالت ہے، اور صحتِ کفالہ کے لیے اس حق کا مضمون ہونا شرط ہے(۱)، لہٰذا اگر بیمہ کمپنی نے مال ہلاک ہونے کی صورتوں میں سے کسی ایسی صورت (جس کی حقیقت ضمانت ہے )میں بیمہ کیا ہے، جس میں جہاز والے کے ذمہ ضمان ہے، تو یہ بیمہ جائز ہے، اور اگر ایسی صورت میں بیمہ کیا ہے جس میں جہاز والے کے ذمہ ضمان نہیں ہے، تو بیمہ جائز نہیں ہے، لیکن اگر انتظامِ حفاظت کا پورا معاوضہ بیمہ کمپنی کو دیا جائے، اور وہ اپنا خاص آدمی حفاظت ونگرانی کے لیے جہاز میں رکھے، تو اس صورت میں کمپنی کا بیمہ کرنا ہر حال میں جائز ہے، اس لیے کہ جس امانت کی حفاظت پر اجرت لی جاوے ، اس کے تلف سے ضمان لازم ہوتا ہے۔(۲) ------------------------------ =لأنہ مضاف إلی فعلہ ، وہو لم یؤمر إلا بعمل فیہ صلاح ، وعمل التلمیذ منسوب إلیہ ، وإلی عدم الضمان إذا کان بفعل غیرہ ، وہو القیاس ۔ (۲/۲۹۷) (۲) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : وإن شرط الضمان علی الأجیر ، فإن کان فیما لا یمکن التحرز عنہ لا یجوز بالإجماع، لأنہ شرط لا یقتضیہ العقد ، وإن کان قیما یمکن التحرز عنہ یجوز عندہما خلافاً للإمام ۔ (۸/۴۸ ، کتاب الإجارۃ ، باب ضمان الأجیر ، تبیین الحقائق :۶/۱۳۹، کتاب الإجارۃ ، باب ضمان الأجیر) (امداد الفتاویٰ :۳۱۰، ۳۱۱، ۳۱۲، جدید مسائل کا حل: ص/۴۴۸، ۴۴۹) (۳) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : في الأشباہ : من أنہ إن شرط ضمانہ ضمن إجماعاً ، وہو منقول عن الخلاصۃ ، وعزاہ ابن ملک للجامع ۔ (۹/۷۷ ، کتاب الإجارۃ ، باب ضمان الأجیر) ما في ’’ الخلاصۃ ‘‘ : فإن شرط علیہ الضمان إذا ہلک یضمن في قولہم جمیعاً ، لأن الأجیر المشترک إنما لا یضمن عند أبي حنیفۃ إذا لم یشترط علیہ الضمان ، أما إذا شرط یضمن ۔ (۳/۱۳۷ ، کتاب الإجارۃ ، الجنس الرابع في الحمامي)=