محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بیع المنابذۃ(مبیع پھینک کر خرید وفروخت) مسئلہ(۲۰۴):’’بیع المنابذۃ‘‘ کی تعریف علامہ شامی یوں فرماتے ہیں: عاقدین میں سے ہر ایک اپنے کپڑے کو دوسرے کی طرف پھینکے، اور کوئی ایک دوسرے کے کپڑے کی طرف نہ دیکھے، صرف کپڑا پھینکنے سے ہی بیع ہوجائے۔(۱) علامہ مرغینانی فرماتے ہیں: بیع منابذہ یہ ہے کہ دو آدمی کسی سامان پر بولی لگا رہے ہوں، کہ اچانک بائع خریدار کی طرف وہ چیز پھینک دے، تو اس سے بیع لازم ہوجائے۔ (۲) مذکورہ دونوں تعریفات باعتبار حقیقت ایک جیسی ہیں، کہ دونوں میں مبیع کے پھینکنے سے بیع لازم ہورہی ہے، البتہ دونوں میں فرق اتناہے کہ علامہ شامی رحمہ اللہ کی بیان کردہ تعریف میں عاقدین میں سے ہر ایک اپنی مبیع کو پھینکتا ہے، جب کہ علامہ مرغینانی رحمہ اللہ کی بیان کردہ تعریف کے مطابق صرف بائع اپنی مبیع کو پھینکتا ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ شامی رحمہ اللہ کی بیان کردہ تعریف زیادہ راجح ہے، کیوں کہ اس میں لفظ ’’منابذہ‘‘ کی رعایت زیادہ ہے۔ اس بیع کے عدمِ جواز پر علماء کا اتفاق ہے،(۳)۔کیوں کہ اس عقد میں جہالت کے اعتبار سے غرر پایا جاتا ہے، یعنی جس وقت عقد انجام دیا جارہا ہوتا ہے، اس وقت کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ بعد میں کس چیز کی یا کس ثمن پر بیع واقع ہوگی۔لہٰذا یہ عقد شرعاً ناجائز ہے۔ ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : =