محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
اولاد کی طرف سے صدقۂ فطر مسئلہ (۸۱): مالدار آدمی کے لیے اپنی ، اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے، اگر نابالغ اولاد مالدا ر ہو، تو ان کے مال میں سے ادا کرے، بالغ اولاد یا بیوی کی طرف سے ، باپ یا شوہر پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب نہیں، البتہ اگر باپ یا شوہر بالغ اولاد یا بیوی کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کردے، تو استحساناً ادا ہوجائے گا۔ (۱) ------------------------------ =(۱/۲۷۵ ، کتاب الصوم ، الفصل السابع) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : وأما التأخیر فلأنہا قربۃ مالیۃ فلا تسقط بعد الوجوب إلا بالأداء کالزکاۃ ، حتی لو مات ولدہ الصغیر أو مملوک یوم الفطر لا یسقط عنہ ، أو افتقر بعد ذلک فکذلک ۔ (۲/۴۴۵ ، کتاب الزکاۃ ، صدقۃ الفطر) (احسن الفتاوی :۴/۳۸۴) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وتجب عن نفسہ وطفلہ الفقیر ، ولا یؤدي عن زوجتہ وعن أولادہ الکبار ، وإن کانوا في عیالہ ، ولو أدی عنہم أو عن زوجتہ بغیر أمرہم أجزاہم استحساناً ، کذا في الہدایۃ ۔ (۱/۱۹۲۔۱۹۳) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : قال : یخرج ذلک عن نفسہ ، ویخرج عن أولادہ الصغار وممالیکہ ، ولا یؤدي عن زوجتہ لقصور الولایۃ والمؤمنۃ ، ولا عن أولادہ الکبار ، وإن کانوا في عیالہ لإنعدام الولایۃ ، ولو أدی عنہم أو عن زوجتہ بغیر أمرہم أجزاہم استحساناً لثبوت الإذن عادۃ ۔ (۱/۲۰۸ ، کتاب الزکاۃ ، باب صدقۃ الفطر) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ :ویؤدیہا من وجبت علیہ عن نفسہ وأولادہ الصغار ولا یؤدي عن زوجتہ ، ولا عن أولادہ الکبار ، وإن کانوا في عیالہ ، لکن لو أدی عنہم أو عن زوجتہ بغیر أمرہم أجزاہم استحساناً ۔ (۳/۲۰۳۸) (کذا في تبیین الحقائق : ۲/۱۳۳ ، ۱۳۴ ، کتاب الزکاۃ ، باب صدقۃ الفطر)=